کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1273
بیٹے حضرت زید کی مطلقہ سے کرایا گیا۔ اس نکاح کا عمل میں آنا تھا کہ منافقین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہایت وسیع پیمانے پر جھوٹے پروپیگنڈے شروع کردیے۔ اور طرح طرح کے وسوسے اور افواہیں پھیلائیں جس کے کچھ نہ کچھ اثرات سادہ لوح مسلمانوں پر بھی پڑے۔ اس پروپیگنڈے کو تقویت پہنچانے کے لیے ایک ’’ شرعی‘‘ پہلو بھی منافقین کے ہاتھ آگیا تھا کہ حضرت زینب آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ جبکہ مسلمان بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ کی حلت جانتے ہی نہ تھے۔ ا ن سب کے علاوہ پروپیگنڈہ کی اصل جان یہ تھی کہ حضرت زید ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے سمجھے جاتے تھے۔ اور بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا نہایت گندی فحش کاری تھی۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔ احزاب میں ان دونوں موضوع سے متعلق کافی شافی آیا ت نازل کیں اورصحابہ کو معلوم ہوگیا کہ اسلام میں منہ بولے بیٹے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ نہایت بلند پایہ اور مخصوص مقاصد کے تحت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصیت کے ساتھ شادی کی تعداد کے سلسلے میں اتنی وسعت دی ہے جو کسی اور کو نہیں دی گئی ہے۔ امہات المومنین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش نہایت شریفانہ ، باعزت ، بلند پایہ اور عمدہ انداز کی تھی۔ ازواج مطہرات بھی شرف ، قناعت ، صبر ، تواضع ، خدمت اور ازدواجی حقوق کی نگہداشت کا مرقع تھیں۔ حالانکہ آپ بڑی روکھی پھیکی اور سخت زندگی گذار رہے تھے جسے برداشت کرلینا دوسروں کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے علم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میدے کی نرم روٹی کھائی ہو یہاں تک اللہ سے جاملے۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھ سے کبھی بھُنی ہوئی بکری دیکھی۔ [1]حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ دو دو ماہ گذر جاتے ، تیسرے مہینے کا چاند نظر آجاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آگ نہ جلتی۔ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ تب آپ لوگ کیا کھاتی تھیں؟ فرمایا کہ بس دو کالی چیزیں، یعنی کھجور اور پانی۔[2]اس مضمون کی احادیث بکثرت ہیں۔ اس تنگی و ترشی کے باوجود ازواج مطہرات سے کوئی لائق عتاب حرکت صادرنہ ہوئی ......صرف ایک دفعہ ایسا ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ ایک تو انسانی فطرت کا تقاضا ہی کچھ ایسا ہے۔ دوسرے