کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1272
اس کامقصد یہ تھا کہ منہ بولے بیٹوں سے متعلق جاہلی اصول عملاً بھی توڑ دیا جائے ، جس طرح اس سے پہلے اس ارشاد کے ذریعہ قولاً توڑا جاچکا تھا۔
﴿ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ (۳۳: ۵)
’’انہیں ان کے باپ کی نسبت سے پکارو ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔‘‘
﴿ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾ (۳۳: ۴۰)
’’محمد ، تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘
اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب معاشرے میں کوئی رواج اچھی طرح جڑ پکڑ لیتا ہے تو محض بات کے ذریعے اسے مٹانایا اس میں تبدیلی لانا بیشتر اوقات ممکن نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ جو شخص اس کے خاتمے یا تبدیلی کا داعی ہو اس کا عملی نمونہ موجود رہنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمانوں کی طرف سے جس حرکت کا ظہور ہوا اس سے اس حقیقت کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ اس موقع پر کہاں تو مسلمانوں کی فداکاری کا یہ عالم تھا کہ جب عروہ بن مسعود ثَقفی نے انہیں دیکھا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھوک اور کھنکار بھی ان میں سے کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ ہی میں پڑ رہا ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضوفرماتے ہیں تو صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے گرنے والا پانی لینے کے لیے اس طرح ٹوٹے پڑ رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آپس میں الجھ پڑیں گے۔ جی ہاں ! یہ وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جو درخت کے نیچے موت یا عدم فرار پر بیعت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جارہے تھے اور یہ وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن میں ابو بکر و عمر جیسے جاں نثاران رسول بھی تھے۔ لیکن انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ۔۔ جو آپ پر مر مٹنا اپنی انتہائی سعادت و کامیابی سمجھتے تھے ۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کا معاہدہ طے کرلینے کے بعد حکم دیا کہ اٹھ کر اپنی ہدی ( قربانی کے جانور ) ذبح کر دیں تو آپا کے حکم کی بجاآوری کے لیے کوئی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قلق و اضطراب سے دوچار ہوگئے۔ لیکن جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر چپ چاپ اپنا جانور ذبح کردیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تو ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کی پیروی کے لیے دوڑ پڑا۔ اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے لپک لپک کر اپنے جانور ذبح کردیے۔ اس واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی پختہ رواج کو مٹانے کے لیے قول ا ور عمل کے اثرات میں کتنا زیادہ فرق ہے۔ اس لیے متبنی کا جاہلی اصول عملی طور پر توڑنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح آپ کے منہ بولے