کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1271
زینب رضی اللہ عنہا پہلے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُتبنیٰ (منہ بولے بیٹے) تھے۔ اور زید بن محمد کہے جاتے تھے، مگر دونو ں میں نباہ مشکل ہوگیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دینے کا ارادہ کر لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں گفتگو بھی کی یہ وہ وقت تھا جب تمام کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف محاذ آرا تھے۔
ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالات کے اشارے یا اللہ تعالیٰ کے خبر دینے سے یہ بات جان چکے تھے کہ اگر زید رضی اللہ عنہ نے طلاق دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی عدت گذرنے کے بعد ان سے شادی کا حکم دیا جائے گا۔ اور اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بجا طور پر یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر انہی حالات میں یہ شادی کرنی پڑ گئی تو منافقین ، مشرکین ، اور یہود بات کا بتنگڑ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت پروپیگنڈہ کریں گے۔ اور سادہ لوح مسلمانوں کو طرح طرح کے وسوسوں میں مبتلا کر کے ان پر برے اثرات ڈالیں گے۔ اس لیے حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کے اپنے ارادے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نباہ کریں۔ اور انھیں طلاق نہ دیں تاکہ ان مشکل حالات میں اس شادی کا مرحلہ پیش نہ آئے۔
لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عتاب فرمایا۔ ارشاد ہوا:
﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّٰهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ﴾(۳۳: ۳۷)
’’اور جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام کیا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انعام کیا ہے (یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ سے ) کہ تم اپنے اوپر اپنی بیوی کو روک رکھو۔ اور اللہ سے ڈرو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور آپ لوگوں سے ڈررہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ مستحق تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ڈرتے۔‘‘
بالآخر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے ہی دی۔ پھر ان کی عدت گذر گئی تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا فیصلہ نازل ہوا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ نکاح لازم کردیا تھا۔ اور کوئی اختیار اور گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔ اس سلسلے میں نازل ہونے والی آیت کریمہ یہ ہے :
﴿ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ﴾ (۳۳: ۳۷)
’’جب زید نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی تو ہم نے اس کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردی تاکہ مومنین پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں پر کوئی حرج نہ رہ جائے جبکہ وہ منہ بولے بیٹے ان سے اپنی حاجت پوری کرلیں۔‘‘