کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1270
سے ، تمدن کے لوا زمات کی پابندی سے اور معاشرے کی تشکیل وتعمیر میں حصہ لینے کی ذمہ داریوں سے بالکل نا آشنا تھی۔ اور اسلامی معاشرے کی تشکیل جن اصولوں کی بنیاد پر کرنی تھی ان میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط کی گنجائش نہ تھی۔ لہٰذا عام اختلاط کے اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کی براہ راست تربیت نہیں کی جاسکتی تھی۔ حالانکہ ان کی تعلیم وتربیت کی ضرورت مردوں سے کچھ کم اہم اور ضروری نہ تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی ضروری تھی۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف یہی ایک سبیل رہ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف عمر اور لیاقت کی اتنی عورتوں کو منتخب فرمالیں جو اس مقصد کے لیے کافی ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تعلیم وتربیت دیدیں ، ان کا تزکیہ نفس فرمادیں۔ انہیں احکام شریعت سکھلادیں۔ اور اسلامی تہذیب وثقافت سے اس طرح آراستہ کردیں کہ وہ دیہاتی اور شہری ، بوڑھی اور جوان ہر طرح کی عورتوں کی تربیت کرسکیں اور انہیں مسائل ِ شریعت سکھا سکیں۔ اور اس طرح عورتوں میں تبلیغ کی مہم کے لیے کافی ہوسکیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی حالات کو امت تک پہنچانے کا سہرا زیادہ تران امہات المومنین ہی کے سر ہے ان میں بھی بالخصوص وہ امہات المومنین جنہوں نے طویل عمر پائی۔ مثال کے طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ۔ کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال واقوال خوب خوب روایت کیے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نکاح ایک ایسی جاہلی رسم توڑنے کے لیے بھی عمل میں آیا تھا جو عرب معاشرہ میں پُشتہا پُشت سے چلی آرہی تھی ، اور بڑی پختہ ہوچکی تھی۔ یہ رسم تھی کسی کو متبنیٰ بنانے کی۔ متبنیٰ کو جاہلی دور میں وہی حقوق اور حرمتیں حاصل تھیں جو حقیقی بیٹے کو ہوا کرتی ہیں۔ پھر یہ دستور اور اصول عرب معاشرے میں اس قدر جڑ پکڑ چکا تھا کہ اس کا مٹانا آسان نہ تھا لیکن یہ اصول ان بنیاد وں اور اصولوں سے نہایت سختی کے ساتھ ٹکراتا تھا جنہیں اسلام نے نکاح ، طلاق ، میراث اور دوسرے معاملات میں مقرر فرمایا تھا۔ اس کے علاوہ جاہلیت کا یہ اصول اپنے دامن میں بہت سے ایسے مفاسد اور فواحش بھی لیے ہوئے تھا جن سے معاشرے کو پاک کرنا اسلام کے اولین مقاصد میں سے تھا۔ لہٰذا اس جاہلی اصول کو توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے فرمادی۔ حضرت