کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1269
اس کی توضیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے شادی کرکے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رشتہ ٔ مصاہرت قائم کیا ، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پے در پے دوصاحبزادیوں حضرت رقیہ پھر حضرت امِ کلثوم کی شادی کر کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کر کے جو رشتہائے مُصَاہرت قائم کیے ان کا مقصود یہ تھا کہ آپ ان چاروں بزرگوں سے اپنے تعلقات نہایت پختہ کرلیں، کیونکہ یہ چاروں بزرگ پیچیدہ ترین مراحل میں اسلام کے لیے فداکاری وجاں سپاری کا جو امتیازی وصف رکھتے تھے وہ معروف ہے۔
عرب کا دستور تھا کہ وہ رشتہ ٔ مصاہرت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ان کے نزدیک دامادی کا رشتہ مختلف قبائل کے درمیان قربت کا ایک اہم باب تھا۔ اور داماد سے جنگ لڑنا اور محاذ آرائی کرنا بڑے شرم اور عار کی بات تھی۔ اس دستور کو سامنے رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند شادیاں اس مقصدسے کیں کہ مختلف افراد اور قبائل کی اسلام دشمنی کا زور توڑدیں۔ اور ان کے بغض ونفرت کی چنگاری بجھادیں۔ چنانچہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا قبیلہ ٔ بنی مخزوم سے تعلق رکھتی تھیں جو ابو جہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا قبیلہ تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کرلی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ میں وہ سختی نہ رہی جس کا مظاہرہ وہ احد میں کرچکے تھے۔ بلکہ تھوڑے ہی عرصہ بعد انہوں نے اپنی مرضی خوشی اور خواہش سے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح جب ابو سفیان کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہ سے شادی کرلی تو پھر ابو سفیان آپ کے مد ِمقابل نہ آیا۔ اور جب حضرت جویریہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آگئیں۔ تو قبیلہ بنی المصطلق اور قبیلہ بنی نضیر نے محاذ آرائی چھوڑ دی۔ حضور کے عقد میں ان دونوں بیویوں کے آنے کے بعد تاریخ میں ان کے قبیلوں کی کسی شورش اور جنگی تگ ودَو کا سراغ نہیں ملتا۔ بلکہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا تو اپنی قوم کے لیے ساری عورتوں سے زیادہ بابرکت ثابت ہوئیں۔ کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے ایک سو گھرانوں کو جو قید میں تھے آزاد کردیا۔ اور کہا کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی ہیں۔ ان کے دلوں پر اس احسان کا جو زبردست اثر ہو ا ہوگا وہ ظاہر ہے۔
ان سب سے بڑی اور عظیم بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اَن گھڑ قوم کو تربیت دینے ، اس کا تزکیۂ نفس کرنے اور تہذیب وتمدن سکھا نے پر مامور تھے۔ جو تہذیب وثقافت