کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1268
رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد ہوا تھا یانہیں ، اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان بڑے اختلافات ہیں جن کی تفصیل کی ہم کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریہ قبطیہ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں ۲۸ یا ۲۹ شوال ۱۰ ھ مطابق ۲۷ جنوری ۶۳۲ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔ دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبیدہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے ، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔[1] یہاں ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے ایک پہلو پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے نہایت پر قوت اور عمدہ ایام، یعنی تقریباً تیس برس صرف ایک بیوی پر اکتفا کرتے ہوئے گذار دیے۔ اور وہ بھی ایسی بیوی پر جو تقریباً بڑھیا تھی، یعنی پہلے حضرت خدیجہ اور پھر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا پر۔ تو کیا یہ تصور کسی بھی درجے میں معقول ہوسکتا ہے کہ اس طرح اتنا عرصہ گذار دینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ گئے تو آپ کے اندر یکایک جنسی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ آپ کو پے در پے نو شادیاں کرنی پڑیں۔ جی نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان دونو ں حصوں پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی ہوش مند آدمی اس تصور کو معقو ل تسلیم نہیں کر سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت ساری شادیاں کچھ دوسرے ہی اغراض ومقاصد کے تحت کی تھیں۔ جو عام شادیوں کے مقررہ مقصد سے بہت ہی زیادہ عظیم القدر اور جلیل المرتبہ تھے۔