کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1256
قبروں کو مسجد بنایا ۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : ’’تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے۔‘‘[2] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کیا اور فرمایا: ’’میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مار اہو تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے ، وہ بدلہ لے لے۔ اور کسی کی آبرو پر بٹہ لگایا ہوتو یہ میری آبرو حاضر ہے، وہ بدلہ لے لے۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لے آئے۔ ظہر کی نمازپڑھائی، اور پھر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور عداوت وغیرہ سے متعلق اپنی پچھلی باتیں دہرائیں۔ ایک شخص نے کہا : آپ کے ذمہ میرے تین درہم باقی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس سے فرمایا : انہیں ادا کردو۔ اس کے بعد انصار کے بارے میں وصیت فرمائی۔ فرمایا : ’’ میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ میرے قلب و جگر ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ مگر ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ لہٰذا ان کے نیکوکار سے قبول کرنا۔ اور ان کے بد کار سے درگذر کرنا۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لوگ بڑھتے جائیں گے اور انصار گھٹتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ کھانے میں نمک کی طرح ہوجائیں گے۔ لہٰذا تمہارا جو آدمی کسی نفع اور نقصان پہنچانے والے کام کا والی ہو تو وہ ان کے نیکوکاروں سے قبول کرے اور ان کے بدکاروں سے درگذر کرے۔‘‘[3] اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ وہ یاتو دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو کچھ چاہے اللہ اسے دے د ے ، یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔‘‘ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ بات سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ اور فرمایا : ہم اپنے ماں باپ سمیت آپ پر قربان۔ اس پر ہمیں تعجب ہوا۔ لوگوں نے کہا : اس بڈھے کو دیکھو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے بارے میں یہ بتارہے ہیں کہ اللہ نے اسے اختیار دیا کہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے اللہ اسے دے دے یا وہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرلے۔ اور یہ بڈھا کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان۔ ( لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ