کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1251
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا : یادر کھو ! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا۔ (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا ) یاد رکھو! کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یاکوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا۔ (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا ) یاد رکھو ! شیطان مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے، لیکن اپنے جن اعمال کو تم لوگ حقیر سمجھتے ہو ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی سے راضی ہوگا۔[1] اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق (۱۱۔ ۱۲۔ ۱۳۔ ذی الحجہ کو ) منیٰ میں مقیم رہے۔ اس دورا ن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے مناسک بھی ادا فرمارہے تھے ، اور لوگوں کو شریعت کے احکام بھی سکھا رہے تھے۔ اللہ کا ذکر بھی فرمارہے تھے۔ سنت ابراہیمی کے سنن ہدی بھی قائم کررہے تھے۔ اور شرک کے آثار ونشانات کا صفایا بھی فرمارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں بھی ایک دن خطبہ دیا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں بہ سند حسن مروی ہے کہ حضرت سراء بنت نبہان رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رؤس کے دن[2]خطبہ دیا۔ اور فرمایا: کیا یہ ایام تشریق کا درمیانی دن نہیں ہے۔[3]آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آج کا خطبہ بھی کل (یوم النحر ) کے خطبے جیسا تھا، اور یہ خطبہ سورہ ٔ نصر کے نزول کے بعد دیا گیا تھا۔ ایام تشریق کے خاتمے پر دوسرے یوم النفر یعنی ۱۳۔ ذی الحجہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ سے کو چ فرمایا۔ اور وادی اَبْطح کے خیف بنی کنانہ میں فروکش ہوئے۔ دن کا باقی ماندہ حصہ اور رات وہیں گذاری۔ اور ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں وہیں پڑھیں۔ البتہ عشاء کے بعد ایک نیند سو کر اٹھے پھر سوار ہوکر بیت اللہ تشریف لے گئے اور طوافِ وداع فرماآئے۔ اور اب تمام مناسک ِ حج سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کا رُخ مدینہ منورہ کی راہ پر ڈال دیا۔ اس لیے نہیں کہ وہاں پہنچ کر راحت فرمائیں، بلکہ اس لیے کہ اب پھر اللہ کی خاطر اللہ کی راہ میں ایک نئی جدوجہد کا آغاز فرمائیں۔ [4]