کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1250
آج یو م النحرتھا۔ یعنی ذی الحجہ کی دس تاریخ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج بھی دن چڑھے (چاشت کے وقت ) ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ خطبہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوار تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات صحابہ کو سنا رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کچھ بیٹھے اور کچھ کھڑے تھے۔ [1]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کے خطبے میں بھی کل کی کئی باتیں دہرائیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یوم النحر (دس ذی الحجہ ) کو خطبہ دیا۔ فرمایا: ’’زمانہ گھوم پھر کر اپنی اسی دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے۔ جن میں سے چار مہینے حرام ہیں، تین پے در پے، یعنی ذی قعدہ ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب ِمُضَر جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہترجانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ بلدہ (مکہ ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو یہ دن کون سا ہے ؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ یوم النحر(قربانی کادن ، یعنی دس ذی الحجہ ) نہیں ہے ؟ہم نے کہا: کیوں نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو سنو کہ تمہار امال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔ اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے۔ اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا ، لہٰذا دیکھو ! میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ بتاؤ ! کیا میں نے تبلیغ کردی ؟ صحابہ نے کہا: ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہ۔ جو شخص موجود ہے وہ غیر موجود تک (میری باتیں ) پہنچادے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک ( یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض ( موجودہ) سننے والے سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دَروبست کو سمجھ سکیں گے۔[2]