کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1249
البتہ صبح نمودار ہوتے ہی اذان واقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد قَصْواء پر سوار ہوکر مَشْعَر حَرَام تشریف لائے۔ اور قبلہ رخ ہوکر اللہ سے دعا کی۔ اور اس کی تکبیر وتہلیل اور توحید کے کلمات کہے۔ یہاں اتنی دیرتک ٹھہرے رہے کہ خوب اجالا ہوگیا۔ اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور اب کی بار حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ بَطنِ مُحسر میں پہنچے تو سواری کو ذرا تیزی سے دوڑایا۔ پھر جو درمیانی راستہ جمرۂ کبریٰ پر نکلتا تھا۔ اس سے چل کر جمرۂ کبریٰ پر پہنچے ____اس زمانے میں وہاں ایک درخت بھی تھا۔ اور جمرۂ کبریٰ اس درخت کی نسبت سے بھی معروف تھا۔ اس کے علاوہ جمرۂ کبریٰ کو جمرہ ٔ عقبہ اور جمرۂ اُ وْلیٰ بھی کہتے ہیں ____پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرۂ کبریٰ کوسات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے جاتے تھے۔ کنکریاں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ جنہیں چٹکی میں لے کر چلایا جاسکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کنکریاں بطن وادی میں کھڑے ہوکر ماری تھیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ تشریف لے گئے۔ اور اپنے دست مبارک سے ۶۳ اُونٹ ذبح کیے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا۔ اور انہوں نے بقیہ ۳۷ اونٹ ذبح کیے۔ اس طرح سواونٹ کی تعداد پوری ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی ہَدْی (قربانی) میں شریک فرمالیا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کرہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس گوشت میں سے کچھ تناول فرمایا، اور اس کا شور باپیا۔
بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوکر مکہ تشریف لے گئے۔ بیت اللہ کا طواف فرمایا ۔ اسے طوافِ افاضہ کہتے ہیں اور مکہ ہی میں ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ پھر (چاہ زمزم پر )بنوعبد المطلب کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ حجاج کرام کو زمزم کا پانی پلارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بنو عبدالمطلب تم لوگ پانی کھینچو۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ پانی پلانے کے اس کام میں لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ کھینچتا ۔ یعنی اگر صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پانی کھینچتے ہوئے دیکھتے تو ہر صحابی خود پانی کھینچنے کی کوشش کرتا۔ اور اس طرح حجاج کو زمزم پلانے کا جو شرف بنو عبد المطلب کو حاصل تھا اس کا نظم ان کے قابو میں نہ رہ جاتا ۔ چنانچہ بنو عبد المطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ڈول پانی دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے حسبِ خواہش پیا۔[1]