کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1248
کی زکوٰۃ دینا، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا۔ ایسا کرو گے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوگے۔[1] اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے ؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کردی ، پیغام پہنچادیا۔ اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : اے اللہ گواہ رہ۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ربیعہ بن امیہ بن خلف اپنی بلند آواز سے لوگوں تک پہنچارہے تھے۔[3]جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سے فارغ ہوچکے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ﴾ (المائده ۵: ۳) ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا۔ اورتم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر رونے لگے۔ دریافت کیاگیا کہ آپ کیوں رورہے ہو؟ فرمایا: اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے ۔[4] خطبہ کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان اور پھر اقامت کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے پھر اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائے وقوف پر تشریف لے گئے۔ اپنی اونٹنی قَصْواء کا شکم چٹانوں کی جانب کیا۔ اور حبل مشاۃ (پیدل چلنے والو ں کی راہ میں واقع ریتیلے تودے ) کو سامنے کیا۔ اور قبلہ رُ خ مسلسل ( اسی حالت میں) وقوف فرمایا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ تھوڑی زردی ختم ہوئی ، پھر سورج کی ٹکیہ غائب ہوگئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھایا۔ اور وہاں سے روانہ ہوکر مُزْدَلْفہ تشریف لائے۔ مُزْدَلْفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دواقامت سے پڑھیں۔ درمیان میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ اور طلوع فجر تک لیٹے رہے۔