کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1237
رائے یہ ٹھہری کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنے بارے میں حکم بنایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ کا جو مطالبہ ہو ہم اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس پیش کش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جزیہ لینا منظور کیا۔ اور دو ہزار جوڑے کپڑوں پر مصالحت فرمائی۔ ایک ہزار ماہ رجب میں اور ایک ہزار ماہ صفر میں۔ اور طے کیا کہ ہر جوڑے کے ساتھ ایک اوقیہ ( ایک سو باون گرام چاندی ) بھی ادا کرنی ہوگی۔ اس کے عوض آپ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ عطا فرمایا۔ اور دین کے بارے میں مکمل آزادی مرحمت فرمائی۔ اس سلسلے میں آپ نے انہیں ایک باقاعدہ نوشتہ لکھ دیا۔ ان لوگوں نے آپ سے گزارش کی ، آپ ان کے ہاں ایک امین ( امانت دار ) آدمی روانہ فرمائیں۔ اس پر آپ نے صلح کا مال وصول کرنے کے لیے اس امت کے امین حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا۔ اس کے بعد ان کے اندر اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ اہل سیر کا بیان ہے کہ سید اور عاقب پلٹنے کے بعد مسلمان ہوگئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صدقات اور جزیے لانے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا اور معلوم ہے کہ صدقہ مسلمانوں ہی سے لیا جاتا ہے۔[1] ۱۳۔وفد بنی حنیفہ :یہ وفد ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ اس میں مسیلمہ کذاب سمیت سترہ آدمی تھے۔[2]مسیلمہ کا سلسلہ ٔ نسب یہ ہے ، مسیلمہ بن ثمامہ بن کبیر بن حبیب بن حارث ۔ یہ وفد ایک انصاری صحابی کے مکان پر اترا۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوکر حلقۂ بگوش اسلام ہوا۔ البتہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ تمام روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اکڑ ، تکبر اور امارت کی ہوس کا اظہار کیا۔ اور وفد کے باقی ارکان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو قولاً اور فعلاً اچھے اور شریفانہ برتاؤ کے ذریعہ اس کی دلجوئی کرنی چاہی، لیکن جب دیکھا کہ اس شخص پر اس برتاؤ کا کوئی مفید اثر نہیں پڑا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فراست سے تاڑ لیا کہ اس کے اندر شر ہے۔ اس سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روئے زمین کے خزانے لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ اور اس میں سے سونے کے دوکنگن آپ کے ہاتھ میں آپڑے ہیں۔ آپ کو یہ دونوں بہت گراں اور رنج دہ محسوس ہوئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی گئی کہ ان دونوں کو پھونک دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھونک دیا تو وہ