کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1236
اور اس کا نام عبد المسیح تھا۔ دوسرا سید جو ثقافی اور سیاسی امور کا نگراں تھا۔ اور اس کا نام ایہم یا شرحبیل تھا۔ تیسرا اسقف (لاٹ پادری) جو دینی سربراہ اور روحانی پیشوا تھا۔ اس کا نام ابو حارثہ بن علقمہ تھا۔ وفد نے مدینہ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، پھر آپ نے ان کچھ سوالات کیے ، اور انہوں نے آپ سے کچھ سوالات کیے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔ اور قرآن حکیم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ اور دریافت کیا کہ آپ مسیح علیہ السلام کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز دن بھر توقف کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں : ﴿ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ، الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ، فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ﴾(آل عمران ۳: ۵۹، ۶۰ ، ۶۱ ) ’’بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ پھر تمہارے پاس علم آجانے کے بعد کوئی تم سے اس (عیسیٰ) کے بارے میں حجت کرے تو اس سے کہہ دو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے اپنے بیٹوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو پھر مباہلہ کریں (اللہ سے گِڑ گڑا کر دعاکریں ) پس اللہ کی لعنت ٹھہرائیں جھوٹوں پر۔‘‘ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی آیات کریمہ کی روشنی میں انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اپنے قول سے آگاہ کیا۔ اور اس کے بعد دن بھر انہیں غور وفکر کے لیے آزاد چھوڑ دیا لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پھر اگلی صبح ہوئی ۔ درآنحالیکہ وفد کے ارکان حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں آپ کی بات تسلیم کرنے اور اسلام لانے سے انکار کر چکے تھے ۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباہلے کی دعوت دی۔ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما سمیت ایک چادر میں لپٹے ہوئے تشریف لائے۔ پیچھے پیچھے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چل رہی تھیں۔ جب وفد نے دیکھا کہ آپ واقعی بالکل تیار ہیں تو تنہائی میں جاکر مشورہ کیا۔ عاقب اور سید دونوں نے ایک دوسرے سے کہا : دیکھو مباہلہ نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ نبی ہے ، اور ہم نے اس سے ملاعنت کرلی تو ہم اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہرگز کامیاب نہ ہوگی۔ روئے زمین پر ہمارا ایک بال اور ناخن بھی تباہی سے نہ بچ سکے گا۔ آخر ان کی