کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1235
بشرطیکہ وہ مقررہ جزیہ اداکریں۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم کو یمن روانہ فرمایا اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔ ۱۰۔ وفد ِ ہمدان :یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد حاضر ِ خدمت ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ کر ، جو کچھ انہوں نے مانگاتھا عطا فرمادیا اور مالک بن نمط رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر کیا ، ان کی قوم کے جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کا گورنر بنایا اور باقی لوگوں کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ وہ چھ مہینے مقیم رہ کر دعوت دیتے رہے لیکن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور حکم دیا کہ وہ خالد رضی اللہ عنہ کو واپس بھیج دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قبیلہ ٔ ہمدان کے پاس جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط سنایا اور اسلام کی دعوت دی تو سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حلقہ بگوش ِ اسلام ہونے کی بشارت بھیجی۔ آپ نے خط پڑھا تو سجدے میں گرگئے۔ پھر سر اٹھاکر فرمایا؛ ہمدان پر سلام ، ہمدان پر سلام۔ ۱۱۔ وفد بنی فَزَارہ :یہ وفد ۹ ھ میں تبوک سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد آیا۔ اس میں دس سے کچھ زیادہ افراد تھے۔ اور سب کے سب اسلام لاچکے تھے۔ ان لوگوں نے اپنے علاقے کی قحط سالی کی شکایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپر تشریف لے گئے۔ اور دونو ں ہاتھ اٹھاکر بارش کی دعاکی۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اپنے ملک اور اپنے چوپایوں کو سیراب کر ، اپنی رحمت پھیلا ، اپنے مردہ شہر کو زندہ کر۔ اے اللہ ! ہم پر ایسی بارش برسا جو ہماری فریاد رسی کردے ، راحت پہنچادے ، خوشگوار ہو ، پھیلی ہوئی ہمہ گیر ہو ، جلد آئے ، دیر نہ کرے ، نفع بخش ہو ، نقصان رساں نہ ہو ، اے اللہ ! رحمت کی بارش ، عذاب کی بارش نہیں۔ اور نہ ڈھانے والی ، نہ غرق کرنے والی اور نہ مٹانے والی بارش۔ اے اللہ ! ہمیں بارش سے سیراب کر ، اور دشمنوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔[1] ۱۲۔وفد نجران :( ن کو زبر ، ج ساکن۔ مکہ سے یمن کی جانب سات مرحلے پر ایک بڑا علاقہ تھا جو ۷۳ بستیوں پر مشتمل تھا۔ تیز رفتار سوار ایک دن میں پورا علاقہ طے کر سکتا تھا۔[2]اس علاقہ میں ایک لاکھ مردان جنگی تھے، جو سب کے سب عیسائی مذہب کے پیرو کار تھے) نجران کا وفد ۹ ھ میں آیا۔ یہ ساٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ ۲۴ آدمی اشراف سے تھے۔ جن میں سے تین آدمیوں کو اہل نجران کی سربراہی و سرکردگی حاصل تھی۔ ایک عاقب جس کے ذمہ امارت و حکومت کا کام تھا۔