کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1234
یہ سن کر لوگ ارتداد سے رک گئے اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔ بہرحال وفد نے اپنی قوم میں واپس آکر اصل حقیقت کوچھپائے رکھا اور قوم کے سامنے لڑائی اور مار دھاڑ کا ہوّا کھڑا کیا اور حزن وغم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام قبول کرلیں اور زنا، شراب اور سُود چھوڑ دیں۔ ورنہ سخت لڑائی کی جائے گی۔ یہ سن کرپہلے تو ثقیف پر نخوتِ جاہلیہ غالب آئی اور وہ دوتین روز تک لڑائی ہی کی بات سوچتے رہے ، لیکن پھر اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور انہوں نے وفد سے گزارش کی کہ وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبات تسلیم کرلے۔ اس مرحلے پر پہنچ کر وفد نے اصل حقیقت ظاہر کی اور جن باتوں پر مصالحت ہوچکی تھی ان کا اظہار کیا۔ ثقیف نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لات کو ڈھانے کے لیے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چند صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک ذرا سی نفری روانہ فرمائی۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بن شعبہ نے کھڑے ہوکر گرز اُٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: واللہ ! میں ذرا آپ لوگوں کو ثقیف پر ہنساؤں گا۔ اس کے بعد لات پر گرزمار کر خود ہی گرپڑے اور ایڑیاں پٹکنے لگے۔ یہ بناوٹی منظر دیکھ کر اہلِ طائف پر ہول طاری ہوگیا۔ کہنے لگے : اللہ مغیرہ کو ہلا ک کرے ، اسے دیوی نے مار ڈالا۔ اتنے میں حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا : اللہ تمہارا بُرا کرے۔ یہ تو پتھر اور مٹی کا تماشا ہے۔ پھر انہوں نے دروازے پر ضرب لگائی اور اسے توڑ دیا۔ اس کے بعد سب سے اونچی دیوار پر چڑھے اور ان کے ساتھ کچھ اور صحابہ رضی اللہ عنہم بھی چڑھے۔ پھر اسے ڈھاتے ڈھاتے زمین کے برابر کردیا حتیٰ کہ اس کی بنیاد بھی کھود ڈالی اور اس کا زیور اور لباس نکال لیا۔ یہ دیکھ کر ثقیف دم بخورد رہ گئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ زیور اور لباس لے کر اپنی ٹیم کے ساتھ واپس ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کچھ اسی دن تقسیم فرمادیا اور نبی کی نصرت اور دین کے اعزاز پر اللہ کی حمد کی۔[1] ۹۔ شاہانِ یمن کا خط: تبوک سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد شاہانِ حِمیر یعنی حارث بن عبد کلال ، نعیم بن عبدکلال اور رعین ، ہمدان اور معافر کے سربراہ نعمان بن قیل کا خط آیا۔ ام کا نامہ بر مالک بن مُرّہ رہادی تھا۔ ان بادشاہوں نے اپنے اسلام لانے اور شرک واہلِ شرک سے علیحدگی اختیار کرنے کی اطلاع دے کر اسے بھیجا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک جوابی خط لکھ کر واضح فرمایا کہ اہل ِ ایمان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ آپ نے اس خط میں معاہدین کے لیے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بھی دیا تھا ،