کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1233
طے کیا کہ ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجیں۔ اور اس کے لیے عَبْدِ یالَیْل بن عَمرو سے بات چیت کی ، مگر وہ آمادہ نہ ہوا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیاجائے جو عروہ بن مسعود کے ساتھ کیاجاچکاہے۔ اس لیے اس نے کہا : میں یہ کام اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک میرے ساتھ مزید کچھ آدمی نہ بھیجو۔ لوگوں نے اس کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ حلیفوں میں سے دوآدمی اور بنی مالک میں سے تین آدمی لگادیے۔ اس طرح کل چھ آدمیوں کا وفد تیار ہوگیا۔ اسی وفد میں حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی بھی تھے جو سب سے زیادہ کم عمر تھے۔ جب یہ لوگ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے تو آپ نے ان کے لیے مسجد کے ایک گوشے میں ایک قُبہّ لگوایا تاکہ یہ قرآن سن سکیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ سکیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے جاتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ آخر ان کے سردار نے سوال کیا کہ آپ اپنے اور ثقیف کے درمیان ایک معاہدہ ٔ صلح لکھ دیں جس میں زنا کاری ، شراب نوشی اور سود خوری کی اجازت ہو۔ ان کے معبود’’لات ‘‘ کو برقرار رہنے دیا جائے۔ انہیں نماز سے معاف رکھا جائے اور ان کے بُت خود ان کے ہاتھوں سے نہ تڑوائے جائیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کوئی بھی بات منظور نہ کی۔ لہٰذا انہوں نے تنہائی میں مشورہ کیا مگر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سپر ڈالنے کے سوا کوئی تدبیر نظر نہ آئی۔ آخر انہوں نے یہی کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرتے ہوئے اسلام قبول کرلیا۔ البتہ یہ شرط لگائی کہ ’’لات‘‘ کو ڈھانے کا انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرمادیں۔ ثقیف اسے اپنے ہاتھوں سے ہرگز نہ ڈھائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط منظور کرلی اور ایک نوشتہ لکھ دیا۔ اور عثمان بن ابی العاص ثقفی کو ان کا امیر بنادیا کیونکہ وہی اسلام کو سمجھنے اور دین وقرآن کی تعلیم حاصل کرنے میں سب سے زیادہ پیش پیش اور حریص تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وفد کے ارکان ہر روز صبح خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوتے تھے، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص کو اپنے ڈیرے پر چھوڑ دیتے تھے۔ اس لیے جب وفد واپس آکر دوپہر میں قیلولہ کرتا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن ابی العاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر قرآن پڑھتے اور دین کی باتیں دریافت کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استراحت فرماتے ہوئے پاتے تو اسی مقصد کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چلے جاتے۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی گورنری بابرکت ثابت ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب خلافت صدیقی میں ارتداد کی لہر چلی اور ثقیف نے بھی مرتد ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے مخاطب کر کے کہا :’’ثقیف کے لوگو! تم سب سے اخیر میں اسلام لائے ہو۔ اس لیے سب سے پہلے مرتد نہ ہوؤ۔‘‘