کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1232
ورثوا المکارم کابراً عن کابر إن الخیار ہم بنو الأخیار
’’جسے کریمانہ زندگی پسند ہو وہ ہمیشہ صالح انصار کے کسی دستے میں رہے۔ انہوں نے خوبیاں باپ داد ا سے ورثہ میں پائی ہے۔ درحقیقت اچھے لوگ وہی ہیں جو اچھوں کی اولاد ہوں۔ ‘‘
۶۔ وفد عذرہ : یہ وفد صفر ۹ ھ میں مدینہ آیا۔ بارہ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ اس میں حمزہ بن نعمان بھی تھے۔ جب وفد سے پوچھا گیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ تو ان کے نمائندے نے کہا : ہم بنوعذرہ ہیں۔ قُصّیِ کے اَخْیافی بھائی۔ ہم نے ہی قصی کی تائید کی تھی۔ اور خزاعہ اور بنوبکر کو مکہ سے نکالا تھا۔ (یہاں) ہمارے رشتے اور قرابت داریاں ہیں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش آمدید کہا۔ اور ملک شام کے فتح کیے جانے کی بشارت دی۔ نیز انہیں کا ہنہ عورتوں سے سوال کرنے سے منع کیا۔ اور ان ذبیحوں سے روکا جنہیں یہ لوگ (حالت شرک میں ) ذبح کیا کرتے تھے۔ اس وفد نے اسلام قبول کیا اور چند روز ٹھہر کر واپس گیا۔
۷۔ وفد بلی :یہ ربیع الاول ۹ ھ میں آیا۔ اور حلقۂ بگوش اسلام ہو کر تین روز مقیم رہا۔ دوران قیام وفد کے رئیس ابوالضبیب نے دریافت کیا کہ کیا ضیا فت میں بھی اجر ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! کسی مالدار یا فقیر کے ساتھ جو بھی اچھا سلوک کروگے وہ صدقہ ہے۔ اس نے پوچھا: مدت ضیافت کتنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن۔ اس نے پوچھا : کسی لاپتہ شخص کی گمشدہ بھیڑ مل جائے تو کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے لیے ہے۔ یا تمہارے بھائی کے لیے ہے۔ یاپھر بھیڑیے کے لیے ہے۔ اس کے بعد اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہیں اس سے کیا واسطہ؟ اسے چھوڑ دو ، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پاجائے۔
۸۔ وفد ِ ثقیف :یہ وفد رمضان ۹ھ میں تبوک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد حاضر ہوا۔ اس قبیلے میں اسلام پھیلنے کی صورت یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی قعدہ ۸ ھ میں جب غزوہ ٔطائف سے واپس ہوئے تو آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس قبیلے کے سردار عُروہ بن مسعود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ پھر اپنے قبیلہ میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ وہ چونکہ اپنی قوم کا سردار تھا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس کی بات مانی جاتی تھی ، بلکہ اسے اس قبیلے کے لوگ اپنی لڑکیوں اور عورتوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے تھے ، اس لیے اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی اطاعت کریں گے۔ لیکن جب اس نے اسلام کی دعوت دی تو اس توقع کے بالکل برخلاف لوگوں نے اس پر ہرطرف سے تیروں کی بوچھاڑ کردی اور اسے جان سے ماڑ ڈالا۔ پھر اسے قتل کرنے کے بعد چند مہینے تو یوں ہی مقیم رہے۔ لیکن اس کے بعد انہیں احساس ہوا کہ گرد وپیش کا علاقہ جو مسلمان ہوچکا ہے ، اس سے ہم مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے۔ لہٰذا انہوں نے باہم مشورہ کرکے