کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1231
لظل یرعد إلا أن یکون لہ من الرسول بإذن اللّٰه تنویل
حتی وضعت یمینی ما أنازعہ فی کف ذی نقمات قیلہ القیل
فلہو أخوف عندی إذ أکلمہ وقیل: إنک منسوب ومسؤل
من ضیغم بضراء الأرض مخدرۃ فی بطن عثر غیل دونہ غیل
إن الرسول لنور یستضاء بہ مہند من سیوف اللّٰه مسلول
’’مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ کے رسول نے مجھے دھمکی دی ہے۔ حالانکہ اللہ کے رسول سے درگزر کی توقع ہے۔ آپ ٹھہریں چغل خوروں کی بات نہ لیں ۔ وہ ذات آپ کی رہنمائی کرے جس نے آپ کو نصائح اور تفصیل سے پُر قرآن کا تحفہ دیا ہے۔ اگر چہ میر ے بارے میں باتین بہت کہی گئی ہیں ، لیکن میں نے جُرم نہیں کیا ہے۔ میں ایسی جگہ کھڑا ہوں اور وہ باتیں دیکھ اور سن رہاہو ں کہ اگر ہاتھی بھی وہاں کھڑا ہواور ان باتوں کو سنے اور دیکھے تو تھراتا رہ جائے۔ سوائے اس صورت کے کہ اس پر اللہ کے اذن سے رسول کی نوازش ہو۔ حتی کہ میں نے اپنا ہاتھ کسی نزاع کے بغیر اس ہستی ٔمحترم کے ہاتھ میں رکھ دیا جسے انتقام پر پوری قدرت ہے ، اور جس کی بات بات ہے۔ جب میں اس سے بات کرتا ہوں ۔ درانحالیکہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تمہاری طرف (فلاں فلاں باتیں ) منسوب ہیں۔ اور تم سے باز پرس کی جائے گی ۔ تو وہ میرے نزدیک اس شیر سے بھی زیادہ خوفناک ہوتے ہیں جس کا کچھار کسی ہلاکت خیزوادی کے بطن میں واقع کسی ایسی سخت زمین میں ہو جس سے پہلے بھی ہلاکت ہی ہو۔ يقيناً رسول ایک نور ہیں جن سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک سونتی ہوئی ہندی تلوار ہیں۔‘‘
اس کے بعد کعب بن زہیر نے مہاجرین قریش کی تعریف کی۔ کیونکہ کعب کی آمدپر ان کے کسی آدمی نے خیر کے سوا کوئی بات اور حرکت نہیں کی تھی۔ لیکن ان کی مدح کے دوران انصار پر طنز کی، کیونکہ ان کے ایک آدمی نے ان کی گردن مارنے کی اجازت چاہی تھی۔ چنانچہ کہا :
مشون مشی الجمال الزہر یعصمہم ضرب إذا عرد السود التنابیل
’’وہ (قریش ) خوبصورت ، مٹکے اونٹ کی چال چلتے ہیں۔ اور شمشیر زنی ان کی حفاظت کرتی ہے۔ جب کہ ناٹے کھوٹے، کالے کلوٹے لوگ راستہ چھوڑ کر بھاگتے ہیں۔ ‘‘
لیکن جب وہ مسلمان ہوگیا۔ اور اس کے اسلام میں عمدگی آگئی تو اس نے ایک قصیدہ انصار کی مدح میں کہا اور ان کی شان میں اس سے جو غلطی ہوگئی تھی اس کی تلافی کی۔ چنانچہ اس قصیدے میں کہا :
من سرہ کرم الحیاۃ فلا یزل في مقنب من صالحی الأنصار