کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1230
مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جن کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا گیا تھا کہ اگروہ خانہ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے پائے جائیں تو بھی ان کی گردن مار دی جائے۔ لیکن یہ شخص بچ نکلا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ طائف ( ۸ ھ ) سے واپس ہوئے تو کعب کے پاس اس کے بھائی بجیر بن زہیر نے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے کئی ان افراد کو قتل کرادیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذائیں پہنچاتے تھے۔ قریش کے بچے کھچے شعراء میں سے جس کی جدھر سینگ سمائی ہے نکل بھاگا ہے۔ لہٰذا اگرتمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اُڑکر آجاؤ، کیونکہ کوئی بھی شخص توبہ کرکے آپ کے پاس آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات منظور نہیں تو پھر جہاں نجات مل سکے نکل بھاگو۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں میں مزید خط وکتابت ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں کعب بن زہیر کوزمین تنگ محسوس ہونے لگی۔ اور اسے اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئے۔ اس لیے آخرکاروہ مدینہ آگیا اور جُہینہ کے ایک آدمی کے ہاں مہمان ہوا۔ پھر اسی کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوا تو جُہینی نے اشارہ کیا اور وہ اُٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا بیٹھا اور اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہچانتے نہ تھے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کعب بن زہیر توبہ کرکے مسلمان ہوگیا ہے۔ اور آپ سے امن کا خواستگار بن کر آیا ہے تو کیا اگر میں اسے آپ کی خدمت میں حاضر کردوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ان چیزوں کو قبول فرمالیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! اس نے کہا : میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سن کر ایک انصاری صحابی اس پر جھپٹ پڑے اور اس کی گردن مارنے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چھوڑ دو ، یہ شخص تائب ہوکر اور پچھلی باتوں سے دستکش ہوکر آیا ہے۔ اس کے بعد اسی موقع پر کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ جس کی ابتدا یوں ہے : بانت سعاد فقلبی الیوم متبول متیم إثرہا، لم یفد ، مکبول ’’سعاد دور ہوگئی تو میرا دل بے قرارہے۔ اس کے پیچھے وارفتہ اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے ا س کا فدیہ نہیں دیا گیا۔ ‘‘ اس قصیدے میں کعب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معذرت کرتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کرتے ہوئے آگے یوں کہا ہے : نبئت أن رسول اللّٰه أوعدنی والعفو عند رسول اللّٰه مأمول مہلا ہداک الذی أعطاک نافلۃ ال قرآن فیہا مواعیظ وتفصیل لا تأخذن بأقوال الوشاۃ ولم أذنب ولو کثرت في الأقاویل لقد أقوم مقاماً لو یقوم بہ أرای وأسمع ما لو یسمع الفیل