کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1229
بددعا کردیجیے۔ لیکن آپ نے فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے۔ اور آپ کی اس دعا کے بعد اس قبیلے کے لوگ مسلمان ہوگئے۔ اور حضرت طفیل نے اپنی قوم کے ستر یا اسی گھرانوں کی جمعیت لے کر ۷ ھ کے اوائل میں اس وقت مدینہ ہجرت کی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تشریف فرماتھے۔ اس کے بعد حضرت طفیل نے خیبر میں آپ کا ساتھ جا ملے ۔
۳۔ فروہ بن عَمْرو جذامی کا پیغام رساں :حضرت فَرْوَہ ، رومی سپاہ کے اندر ایک عربی کمانڈر تھے۔ انہیں رُومیوں نے اپنے حدود سے متصل عرب علاقوں کا گورنر بنا رکھا تھا۔ ان کا مرکز معان (جنوبی اُردن ) تھا اور عملداری گرد وپیش کے علاقے میں تھی۔ انہوں نے جنگ مُوتہ ( ۸ ھ ) میں مسلمانوں کی معرکہ آرائی ، شجاعت اور جنگی پختگی دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور ایک قاصد بھیج کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مسلمان ہونے کی اطلاع دی۔ تحفہ میں ایک سفید خچر بھی بھجوایا۔ رومیوں کو ان کے مسلمان ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے پہلے تو انہیں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا۔ پھر اختیار دیا کہ یا تو مرتد ہوجائیں یاموت کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے ارتداد پر موت کو ترجیح دی۔ چنانچہ انہیں فلسطین میں عفراء نامی ایک چشمے پر سولی دے کر شہید کر دیا گیا۔[1]
۴۔ وفد صَدَاء :یہ وفد ۸ ھ میں جعِرّانہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کے بعد حاضرِ خدمت ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار سو مسلمانوں کی ایک مہم تیار کرکے اسے حکم دیا کہ یمن کا وہ گوشہ روند آویں جس میں قبیلہ صَدَاء رہتا ہے۔ یہ مہم ابھی وادیٔ قناۃ کے سرے پر خیمہ زن تھی کہ حضرت زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ صدائی کو اس کا علم ہوگیا۔ وہ بھاگم بھاگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ میرے پیچھے جولوگ ہیں میں ان کے نمائندہ کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں۔ لہٰذا آپ لشکر واپس بلالیں۔ اور میں آپ کے لیے اپنی قوم کا ضامن ہوں۔ آپ نے وادیٔ قناۃ ہی سے لشکر واپس بلالیا۔ اس کے بعد حضرت زیاد نے اپنی قوم میں واپس جاکر انہیں ترغیب دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ ان کی ترغیب پر پندرہ آدمی خدمت نبوی میں حاضر ہوئے۔ اور قبول اسلام پر بیعت کی۔ پھر اپنی قوم میں واپس جاکر اسلام کی تبلیغ کی۔ اور ان میں اسلام پھیل گیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کے ایک سو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شرفِ باریابی حاصل کیا۔
۵۔ کعب بن زہیر بن ابی سلمیٰ کی آمد :یہ شخص ایک شاعر خانوادے کا چشم وچراغ تھا اور خود بھی عرب کا عظیم ترین شاعر تھا۔ یہ کافر تھا ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔ امام حاکم کے بقول یہ بھی ان