کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1226
کمزور کا حق نہ لیا جائے۔ اسی طرح اب جنگ کا معنی یہ ہوگیا کہ ان کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو نجات دلائی جائے جو دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں۔ اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ولی بنا ، اور اپنے پاس سے مدد گاربنا۔ نیز اس جنگ کا معنی یہ ہوگیا کہ اللہ کی زمین کو غدر وخیانت ، ظلم وستم اور بدی وگناہ سے پاک کر کے اس کی جگہ امن وامان ، رافت ورحمت ، حقوق رسانی اور مروت وانسانیت کا نظم بحال کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے لیے شریفانہ ضوابط بھی مقرر فرمائے اور اپنے فوجیوں اور کمانڈروں پر ان کی پابندی لازمی قرار دیتے ہوئے کسی حال میں ا ن سے باہر جانے کی اجازت نہ دی۔ حضرت سلیمان بن بریدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی لشکر یا سَریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے خاص اس کے اپنے نفس کے بارے اللہ عزوجل کے تقویٰ کی اور اس کے مسلمان ساتھیوں کے بارے میں خیر کی وصیت فرماتے۔ پھر فرماتے : اللہ کے نام سے اللہ کی راہ میں غزوہ کرو۔ جس نے اللہ کے ساتھ کفرکیا ان سے لڑائی کرو۔ غزوہ کرو ، خیانت نہ کرو ، بد عہدی نہ کرو ، ناک کان وغیرہ نہ کاٹو ، کسی بچے کو قتل نہ کرو۔ الخ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسانی برتنے کا حکم دیتے اور فرماتے : ’’آسانی کرو ، سختی نہ کرو۔ لوگوں کو سکون دلاؤ، متنفر نہ کرو۔‘‘ [1]اور جب رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہونے سے پہلے چھاپہ نہ مارتے۔ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو آگ میں جلانے سے نہایت سختی کے ساتھ منع کیا۔ اسی طرح باندھ کر قتل کرنے اور عورتوں کو مارنے اور انہیں قتل کرنے سے بھی منع کیا۔ اور لوٹ پاٹ سے روکا۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتی باڑی تباہ کرنے ، جانور ہلاک کرنے اور درخت کاٹنے سے منع فرمایا ، سوائے اس صورت کے کہ اس کی سخت ضرورت آن پڑے۔ اور درخت کاٹے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ کسی زخمی پر حملہ نہ کرو۔ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرو۔ اور کسی قیدی کو قتل نہ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت بھی جاری فرمائی کہ سفیر کو قتل نہ کیا جائے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدین (غیر مسلم شہریوں )کے قتل سے بھی نہایت سختی سے روکا۔ یہاں تک کہ فرمایا: جو شخص کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گا، حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلے سے پائی جاتی ہے۔ یہ اور اس طرح کے دوسرے بلند پایہ قواعد وضوابط تھے جن کی بدولت جنگ کا عمل جاہلیت کی گندگیوں سے پاک وصاف ہو کر مقدس جہاد میں تبدیل ہوگیا۔ ٭٭٭