کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1225
اثر ڈالتی ہے کہ انہیں بچاؤ کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں رہ جاتی۔ یہ گفتگو تو ان غزوات کے خالص فوجی اور جنگی پہلو سے تھی۔ باقی رہے دوسرے گوشے تو وہ بھی بے حد اہم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات کے ذریعے امن وامان قائم کیا۔ فتنے کی آگ بجھائی۔ اسلام وبُت پرستی کی کشمکش میں دشمن کی شوکت توڑ کر رکھ دی۔ اور انہیں اسلامی دعوت وتبلیغ کی راہ آزاد چھوڑنے اور مصالحت کر نے پر مجبور کردیا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جنگوں کی بدولت یہ بھی معلوم کرلیا کہ آپ کا ساتھ دینے والوں میں سے کون سے لوگ مخلص ہیں اور کون سے لوگ منافق ؟ جو نہاں خانہ ٔ دل میں غدر وخیانت کے جذبات چھپائے ہوئے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاذ آرائی کے عملی نمونوں کے ذریعے مسلمان کمانڈروں کی ایک زبردست جماعت بھی تیار کر دی ، جنہوں نے آپ کے بعد عراق و شام کے میدانوں میں فارس و روم سے ٹکر لی۔ اور جنگی پلاننگ اور تکنیک میں ان کے بڑے بڑے کمانڈروں کو مات دے کر انہیں ان کے مکانات و سرزمین سے ،اموال و باغات سے ، چشموں اور کھیتوں سے، آرام دہ اور باعزت مقام سے اور مزے دار نعمتوں سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غزوات کی بدولت مسلمانوں کے لیے رہائش ، کھیتی ، پیشے اور کام کا انتظام فرمایا۔ بے خانماں اور محتاج پناہ گزینوں کے مسائل حل فرمائے۔ ہتھیار ، گھوڑے ، ساز و سامان اور اخراجات جنگ مہیا کیے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے بندوں پر ذرہ برابر ظلم و زیادتی اور جور و جفا کیے بغیر حاصل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسباب و وجوہ اور اغراض و مقاصد کو بھی تبدیل کر ڈالا جن کے لیے دور جاہلیت میں جنگ کے شعلے بھڑکا کرتے تھے۔ یعنی دور جاہلیت میں جنگ نام تھی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا ، ظلم و زیادتی اور انتقام و تشدد کا ، کمزوروں کو کچلنے ، آبادیاں ویران کرنے اور عمارتیں ڈھانے کا ، عورتوں کی بے حرمتی کرنے اور بوڑھوں ، بچوں اور بچیوں کے ساتھ سنگدلی سے پیش آنے کا ، کھیتی باڑی اور جانوروں کو ہلاک کرنے اور زمین میں تباہی و فساد مچانے کا۔ مگر اسلام نے اس جنگ کی روح تبدیل کر کے اسے ایک مقدس جہاد میں بدل دیا۔ جسے نہایت موزوں اور معقول اسباب کے تحت شروع کیا جاتا ہے۔ اوراس کے ذریعے ایسے شریفانہ مقاصد اور بلند پایہ اغراض حاصل کیے جاتے ہیں جنہیں ہر زمانے اور ہر ملک میں انسانی معاشرہ کے لیے باعث اعزاز تسلیم کیا گیا ہے۔ کیونکہ اب جنگ کا مفہوم یہ ہوگیا کہ انسان کو قہر و ظلم کے نظام سے نکال کر عدل و انصاف کے نظام میں لانے کی مسلح جد و جہد کی جائے۔ یعنی ایک ایسے نظام کو جس میں طاقتور کمزور کو کھارہا ہو ، الٹ کر ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں طاقتور کمزور ہو جائے جب تک کہ اس سے