کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1220
دعویٰ کیا تھااور اب جھوٹا عذر پیش کرکے غزوہ میں شریک نہ ہونے کی اجازت لے لی تھی اور پیچھے بیٹھ رہے تھے۔ یا سر ے سے اجازت لیے بغیر ہی بیٹھے رہ گئے تھے۔ ہاں ! تین آدمی ایسے تھے جو سچے اور پکے مومن تھے۔ اور کسی وجہ جواز کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ انہیں اللہ نے آزمائش میں ڈالا اور پھر ان کی توبہ قبول کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول سب سے پہلے مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ وہاں دورکعت نماز پڑھی۔ پھر لوگوں کی خاطر بیٹھ گئے۔ ادھر منافقین نے جن کی تعداد اسی سے کچھ زیادہ تھی،[1]آکر معذرتیں شروع کردیں۔ اور قسمیں کھانے لگے۔ آپ نے ان سے ان کا ظاہر قبول کرتے ہوئے بیعت کرلی اور دعائے مغفرت کی، اور ان کا باطن اللہ کے حوالے کردیا۔ باقی رہے تینوں مومنین صادقین ____یعنی کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن اُمیہ ____تو انہوں نے سچائی اختیار کرتے ہوئے اقرار کیا کہ ہم نے کسی مجبوری کے بغیر غزوے میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ان تینوں سے بات چیت نہ کریں۔ چنانچہ ان کے خلاف سخت بائیکاٹ شروع ہوگیا۔ لوگ بدل گئے، زمین بھیانک بن گئی۔ اور کشادگی کے باوجود تنگ ہوگئی۔ اور خود ان کی اپنی جان پر بن آئی۔ سختی یہاں تک بڑھی کہ چالیس روز گزر نے کے بعد حکم دیا کہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں جب بائیکاٹ پر پچاس روز پورے ہوگئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کیے جانے کا مژدہ نازل کیا۔ ارشاد ہوا : ﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللّٰهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴾ (۹: ۱۱۸) ’’اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین اپنی کشادگی کے باوجود ان پرتنگ ہوگئی ، اور ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ سے (بھاگ کر) کوئی جائے پناہ نہیں ہے مگر اسی کی طرف۔ پھر اللہ ان پر رجوع ہوا تاکہ وہ توبہ کریں يقيناً اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے۔‘‘ اس فیصلے کے نزول پر مسلمان عموماً اور یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً بے حد وحساب خوش ہوئے۔ لوگوں نے دوڑ دوڑ کر بشارت دی۔ خوشی سے چہرے کھل اُٹھے اور انعامات اور صدقے دیے۔ درحقیقت یہ ان کی زندگی کا