کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1208
بھیڑ بکریوں سے ہاتھ پُر کرلیے۔ انہیں قیدیو ں میں حاتم طائی کی صاحبزادی بھی تھیں۔ البتہ حاتم کے صاحبزادے عدی ملک شام بھاگ گئے تھے۔ مسلمانوں نے قلس کے خزانے میں تین تلواریں اور تین زرہیں پائیں۔ اور راستے میں مال غنیمت تقسیم کرلیا۔ البتہ منتخب مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علیحدہ کردیا اور آل ِ حاتم کو تقسیم نہیں کیا۔
مدینہ پہنچے تو حاتم کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہاں جو آسکتا تھا لاپتہ ہے۔ والد گذرچکے ہیں اور میں بڑھیاہوں۔ خدمت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آپ مجھ پر احسان کیجیے ، اللہ آپ پر احسان کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا : تمہارے لیے کون آسکتا تھا۔ بولیں : عدی بن حاتم۔ فرمایا : وہی جو اللہ اور رسول سے بھاگا ہے۔ پھر آپ آگے بڑھ گئے۔ دوسرے دن اس نے پھر یہی بات دہرائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی فرمایا جو کل فرمایا تھا۔ تیسرے دن پھر اس نے وہی بات کہی تو آپ نے احسان فرماتے ہوئے اسے آزاد کردیا۔ اس وقت آپ کے بازو میں ایک صحابی تھے غالباً حضرت علی رضی اللہ عنہ ، انہوں نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا بھی سوال کرو۔ اس نے سواری کا سوال کیا۔ آپ نے سواری فراہم کرنے کا بھی حکم صادر فرمایا۔
حاتم کی صاحبزادی لوٹ کر اپنے بھائی عدی کے پاس ملک شام گئیں۔ جب ان سے ملاقات ہوئی توا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ تمہارے باپ بھی ویسا نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے پاس رغبت یا خوف کے ساتھ جاؤ۔ چنانچہ عدی کسی امان یا تحریر کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے گھر لے گئے اور جب وہ سامنے بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد وثنا کی پھر فرمایا : تم کس چیز سے بھاگ رہے ہو ؟ کیا لاالہ الا اللّٰہکہنے سے بھاگ رہے ہو؟اگر ایسا ہے تو بتاؤ کیا تمہیں اللہ کے سوا کسی اور معبود کا علم ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر گفتگو کی اس کے بعد فرمایا : اچھا اس سے بھاگتے ہو کہ اللّٰہ اکبرکہا جائے تو کیا تم اللہ سے بڑی کوئی چیز جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سنو ! یہود پر اللہ کے غضب کی مار ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں۔ انہوں نے کہا: تو میں یک رُخا مسلمان ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ فرطِ مسرت سے دمک اٹھا۔ اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں ایک انصاری کے ہاں ٹھہرادیا گیا اور وہ صبح وشام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے۔[1]
ابن اسحاق نے حضرت عدی سے یہ بھی روایت کی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے سامنے