کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1199
کر آگ لگانے کے لیے دیوار تک پہنچ گئی۔ لیکن دشمن نے ان پر لوہے کے جلتے ٹکڑے پھینکے ، جس سے مجبور ہوکر مسلمان دبابہ کے نیچے سے باہر نکل آئے، مگر باہر نکلے تو دشمن نے ان پر تیروں کی بارش کردی جس سے بعض مسلمان شہید ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگی حکمت ِ عملی کے طور پر حکم دیا کہ انگور کے درخت کاٹ کر جلا دیے جائیں۔ مسلمانوں نے ذرا بڑھ چڑھ کر ہی کٹائی کردی۔ اس پر ثقیف نے اللہ اور قرابت کا واسطہ دے کر گزارش کی کہ درختوں کو کاٹنا بند کردیں۔ آپ نے اللہ کے واسطے اور قرابت کی خاطر ہاتھ روک لیا۔ دورانِ محاصرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے اعلان کیا: جو غلام قلعہ سے اتر کر ہمارے پاس آجائے وہ آزاد ہے۔ اس اعلان پر تیئس آدمی قلعہ سے نکل کر مسلمانوں میں آشامل ہوئے۔[1]انہیں میں حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہ قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر ایک چرخی یا گھراری کی مدد سے (جس کے ذریعہ رہٹ سے پانی کھینچاجاتا ہے) لٹک کر نیچے آئے تھے۔ (چونکہ گھراری کو عربی میں بکرہ کہتے ہیں ) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابو بکرہ رکھ دی۔ ان سب غلاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کردیا۔ اور ہر ایک کو ایک ایک مسلمان کے حوالے کردیا کہ اسے سامان بہم پہنچائے۔ یہ حادثہ قلعہ والوں کے لیے بڑا جانکاہ تھا۔ جب محاصرہ طول پکڑ گیا اور قلعہ قابو میں آتا نظر نہ آیا۔ اور مسلمانوں پر تیر وں کی بارش اور گرم لوہوں کی زد پڑی۔ اور ادھر اہلِ قلعہ نے سال بھر کا سامان خورد ونوش بھی جمع کرلیا تھا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو فل بن معاویہ دیلی سے مشورہ طلب کیا۔ اس نے کہا : لومڑی اپنے بھٹ میں گھس گئی ہے۔ اگر آپ اس پر ڈٹے رہے تو پکڑلیں گے اور اگر چھوڑ کر چلے گئے تو وہ آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ ختم کرنے کا فیصلہ فرما لیا ، اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ لوگوں میں اعلان کروادیا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے لیکن یہ اعلان صحابہ کرام پر گراں گزار۔ وہ کہنے لگے: ہونہہ ! طائف فتح کیے بغیر واپس ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو کل صبح لڑائی پرچلنا ہے۔ چنانچہ دوسرے دن لوگ لڑائی پر گئے، لیکن چوٹ کھانے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا تو اس کے بعد آپ نے پھر فرمایا کہ ہم ان شاء اللہ کل واپس ہوں گے۔ اس پر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اور انہو ں نے بے چون وچرا رخت ِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے۔