کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1196
عبد اللہ کا بیٹا محمد ہوں۔ اس وقت اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند مہاجرین اور اہل ِ خاندان کے سواکوئی نہ تھا۔[1] ان نازک ترین لمحات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نظیر شجاعت کا ظہور ہوا۔ یعنی اس شدید بھگدڑ کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے اور یہ فرما رہے تھے : أنا النبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب ’’میں نبی ہو ں، جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘ لیکن اس وقت ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ نے آپ کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رکاب تھام لی تھی۔ دونوں خچر کو روک رہے تھے کہ کہیں تیزی سے آگے نہ بڑھ جائے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو____جن کی آواز خاصی بلند تھی ____حکم دیا کہ صحابہ کرام کو پکاریں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نہایت بلند آواز سے پکارا: درخت والو…! (بیعت رضوان والو___!) کہاں ہو ؟ واللہ! وہ لوگ میری آواز سن کر اس طرح مڑے جیسے گائے اپنے بچوں پر مڑتی ہے اور جوابا ً کہا : ہاں ہاں آئے آئے۔ [2]حالت یہ تھی کہ آدمی اپنے اونٹ کو موڑنے کی کوشش کرتا اور نہ موڑ پاتا تو اپنی زرہ اس کی گردن میں ڈال پھینکتا۔ اور اپنی تلوار اور ڈھال سنبھال کر اونٹ سے کود جاتا۔ اور اونٹ کو چھوڑ چھاڑ کر آواز کی جانب دوڑتا۔ اس طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سو آدمی جمع ہوگئے تو انہوں نے دشمن کا استقبال کیا اور لڑائی شروع کردی۔ اس کے بعد انصار کی پکار شروع ہوئی۔ او ____انصاریو! او ____انصاریو! پھر یہ پکار بنو حارث بن خزرج کے اندر محدود ہوگئی۔ ادھر مسلمان دستوں نے جس رفتار سے میدان چھوڑا تھا اسی رفتار سے ایک کے پیچھے ایک آتے چلے گئے۔ اور دیکھتے دیکھتے فریقین میں دھواں دھار جنگ شروع ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ کی طرف نظر اٹھا کردیکھا تو گھمسان کا رن پڑرہا تھا۔ فرمایا :’’اب چولھا گرم ہوگیا ہے۔‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین سے ایک مٹھی مٹی لے کر دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا : شاھت الوجوہ ’’چہرے بگڑ جائیں۔‘‘یہ مٹھی بھر مٹی اس طرح پھیلی کہ دشمن کا کوئی آدمی ایسا نہ تھا جس کی