کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1195
یہاں پہلے ہی پہنچ کر اور اپنا لشکر رات کی تاریکی میں اس وادی کے اندر اتار کر اسے راستوں ، گزرگاہوں گھاٹیوں ، پوشیدہ جگہوں اور درّوں میں پھیلا اور چھپا چکا تھا۔ اور اسے یہ حکم دے چکا تھا مسلمان جونہی نمودار ہوں انہیں تیروں سے چھلنی کردینا، پھر ان پر ایک آدمی کی طرح ٹوٹ پڑنا۔
ادھر سحر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی ترتیب وتنظیم فرمائی اور پرچم باندھ باندھ کر لوگوں میں تقسیم کیے پھر صبح کے جھٹپٹے میں مسلمانوں نے آگے بڑھ کر وادی حنین میں قدم رکھا۔ وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے۔ انہیں مطلق علم نہ تھا کہ اس وادی کے تنگ دروں کے اندر ثقیف وہوازن کے جیالے ان کی گھات میں بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ بے خبری کے عالم میں پورے اطمینان کے ساتھ اُتر رہے تھے کہ اچانک ان پر تیر وں کی بارش شروع ہوگئی۔ پھر فوراً ہی ان پر دشمن کے پَرے کے پَرے فردِ واحد کی طرح ٹوٹ پڑے (اس اچانک حملے سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں ایسی بھگدڑ مچی کہ کوئی کسی کی طرف تاک نہ رہا تھا۔ بالکل فاش شکست تھی۔ یہاں تک کہ ابو سفیان بن حرب نے ۔ جو ابھی نیا نیا مسلمان تھا ۔ کہا : اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی۔ اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے چیخ کرکہا : دیکھو آج جادو باطل ہوگیا۔
یہ ابن اسحاق کا بیان ہے۔ بَرَاء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان جو صحیح بخاری میں مروی ہے اس سے مختلف ہے۔ ان کا ارشاد ہے کہ ہوازن تیرانداز تھے۔ ہم نے حملہ کیا تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد ہم غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور تیروں سے ہمارا استقبال کیا گیا۔[1]
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان جو صحیح مسلم میں مروی ہے ، وہ بظاہر اس سے بھی قدرے مختلف ہے مگر بڑی حد تک اس کا مؤید ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے مکہ فتح کیا۔ پھر حنین پر چڑھائی کی۔ مشرکین بہت عمدہ صفوں میں آئے جو میں نے کبھی نہ دیکھی۔ سواروں کی صف ، پھر پیادوں کی صف ، پھر ان کے پیچھے عورتیں ، پھر بھیڑ بکریاں ، پھر دوسرے چوپائے۔ ہم لوگ بڑی تعداد میں تھے۔ ہمارے سواروں کے میمنہ پر خالد بن ولید تھے۔ مگر ہمارے سوار ہماری پیٹھ کے پیچھے پناہ گیر ہونے لگے، اور ذراسی دیر میں ہمارے سوار بھاگ کھڑے ہوئے۔ اعراب بھی بھاگے اور وہ لوگ بھی جنہیں تم جانتے ہو۔[2]
بہرحال جب بھگدڑ مچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف ہوکر پکارا :لوگو! میری طرف آؤ میں