کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1189
پاس جاکر اسے توڑ ڈالا، اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے خزانہ والا مکان ڈھادیں لیکن اس میں کچھ نہ ملا۔ پھر مجاور سے فرمایا : کہو کیسا رہا ؟ اس نے کہا : میں اللہ کے لیے اسلام لایا۔
3۔ اسی ماہ حضرت سعد بن زید اشہلی کو بیس سوار دے کر مَنَاۃ کی جانب روانہ کیا گیا۔ یہ قُدید کے پاس مشلل میں اوس وخزرج اور غسّان وغیرہ کا بت تھا۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو اس کے مجاور نے ان سے کہا: تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا : مناۃ کوڈھانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا : تم جانو اور تمہارا کام جانے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ مناۃ کی طرف بڑھے تو ایک کالی ننگی ،پراگندہ سر عورت نکلی۔ وہ اپنا سینہ پیٹ پیٹ کر ہائے ہائے کررہی تھی۔ اس سے مجاور نے کہا : مناۃ ! اپنے کچھ نافرمانوں کو پکڑ لے۔ لیکن اتنے میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے تلوار مار کر اس کا کام تمام کردیا۔ پھر لپک کر بت ڈھادیا، اور اسے توڑ پھوڑ ڈالا۔ خزانے میں کچھ نہ ملا۔
4۔ عُزّیٰ کو ڈھاکر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ واپس آئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ماہ رمضان ۸ھ میں بنوجَذِیمہ کے پاس روانہ فرمایا۔ لیکن مقصود حملہ نہیں بلکہ اسلام کی تبلیغ تھی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ مہاجرین وانصار اور بنو سلیم کے ساڑھے تین سو افراد لے کر روانہ ہوئے اور بنو جذیمہ کے پاس پہنچ کر اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے أسلمنا (ہم اسلام لائے ) کے بجائے صَبَاٗنا صَبَاٗنا (ہم نے اپنا دین چھوڑ ا، ہم نے اپنا دین چھوڑا ) کہا۔ اس پر حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے ان کا قتل اور ان کی گرفتاری شروع کردی، اور ایک ایک قیدی اپنے ہر ہر ساتھی کے حوالے کیا۔ پھر ایک دن حکم دیا کہ ہر آدمی اپنے قیدی کو قتل کردے۔ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کردیا۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونو ں ہاتھ اٹھائے اور دوبار فرمایا : اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا میں اس سے تیری طرف براء ت اختیار کرتا ہوں۔[1]
اس موقع پر صرف بنوسُلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کو قتل کیا تھا۔ انصار ومہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔ اس معاملے میں حضرت خالد اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان کچھ سخت کلامی اور برائی بھی ہوگئی تھی۔ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا : خالد ! ٹھہرجاؤ۔ میرے رفقاء کو کچھ کہنے سے باز رہو۔ اللہ کی قسم! اگر احد پہاڑ سونا ہوجائے اور وہ سارا کا سارا تم اللہ کی راہ میں خرچ کردو تب بھی میرے رفقاء میں سے کسی ایک آدمی کی ایک صبح کی عبادت یاایک