کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1172
جاسوسوں اور خبروں کو قریش تک پہنچنے سے روک اورپکڑ لے تاکہ ہم ان کے علاقے میں ان کے سر پر ایک دم جاپہنچیں۔ پھر کمال اخفاء اور رازداری کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع ماہ رمضان ۸ ھ میں حضرت ابو قتادہ بن ربعی کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اضم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ مقام ذی خشب اور ذی المروہ کے درمیان مدینہ سے ۳۶ عربی میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقصد یہ تھا کہ سمجھنے والا سمجھے کہ آپ اسی علاقے کا رخ کریں گے اور یہی خبریں اِدھر اُدھر پھیلیں۔ لیکن یہ سریہ جب اپنے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اسے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ بھی آپ سے جاملا۔[1] ادھر حاطب ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے قریش کو ایک رقعہ لکھ کر یہ اطلاع دے بھیجی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حملہ کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ رقعہ ایک عورت کو دیا تھا۔ اور اسے قریش تک پہنچانے پر معاوضہ رکھا تھا۔ عورت سر کی چوٹی میں رقعہ چھپا کر روانہ ہوئی۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان سے حاطب کی اس حرکت کی خبر دے دی گئی۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی، حضرت مقداد ، حضرت زبیر اور حضرت ابو مرثد غنوی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاؤ روضۂ خاخ پہنچو۔ وہاں ایک ہودج نشین عورت ملے گی۔ جس کے پاس قریش کے نام ایک رقعہ ہوگا۔ یہ حضرات گھوڑوں پر سوار تیزی سے روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچے تو عورت موجود تھی۔ اس سے کہا کہ وہ نیچے اُترے اور پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی خط ہے ؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ انہوں نے اس کے کجاوے کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کہا ہے نہ ہم جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ تم یاتو خط نکالو ، یا ہم تمہیں ننگا کردیں گے۔ جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو بولی : اچھا منہ پھیرو۔ انہوں نے منہ پھیر ا تو اس نے