کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1170
مینگنی لے کر توڑی تو اس میں کھجور کی گٹھلی نظر آئی۔ ابو سفیان نے کہا : میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بُدیل ، محمد ؐ کے پاس گیا تھا۔ بہرحال ابو سفیان مدینہ پہنچا اور اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھرگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا۔ ابو سفیان نے کہا : بیٹی ! کیا تم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یا مجھے اس بستر کے لائق نہیں سمجھا ؟ انہوں نے کہا : یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے اور آپ ناپاک مشرک آدمی ہیں۔ ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم ! میرے بعد تمہیں شر پہنچ گیا ہے۔ پھر ابو سفیان وہاں سے نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے اسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کریں۔ انہوں نے کہا : میں ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بات کی۔ انہوں نے کہا : بھلا میں تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے لکڑی کے ٹکڑے کے سوا کچھ دستیاب نہ ہوتو میں اسی کے ذریعے تم لوگوں سے جہاد کروں گا۔ اس کے بعد وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔ وہاں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو ابھی چھوٹے سے بچے تھے اور سامنے پھدک پھدک کر چل رہے تھے۔ ابوسفیان نے کہا : اے علی ! میرے ساتھ تمہارا سب سے گہرانسبی تعلق ہے۔ میں ایک ضرورت سے آیا ہوں۔ ایسا نہ ہوکہ جس طرح میں نامراد آیا اسی طرح نامراد واپس جاؤں۔ تم میرے لیے محمد ؐ سے سفارش کردو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ابو سفیان ! تجھ پر افسوس ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات کا عزم کرلیا ہے۔ ہم اس بارے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوا ، اور بولا: کیا آپ ایسا کرسکتی ہیں کہ اپنے اس بیٹے کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرکے ہمیشہ کے لیے عرب کا سردار ہوجائے ؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : واللہ ! میرا یہ بیٹا ا س درجہ کو نہیں پہنچاہے کہ لوگوں کے درمیان پناہ دینے کا اعلان کرسکے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کوئی پناہ دے بھی نہیں سکتا۔ ان کوششوں اور ناکامیوں کے بعد ابو سفیان کی آنکھوں کے سامنے دنیا تاریک ہوگئی۔ اس نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سخت گھبراہٹ ، کش مکش اور مایوسی وناامیدی کی حالت میں کہا کہ ابو الحسن ! میں دیکھتا ہوں کہ معاملات سنگین ہوگئے ہیں ، لہٰذامجھے کوئی راستہ بتاؤ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! میں