کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1135
اس کے مقابل میرے چچا عامر نمودار ہوئے اور فرمایا:
قد علمت خیبر أنی عامر شاکی السلاح بطل مغامر
’’خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہو ں۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو۔ ‘‘
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کے ڈھال میں جاچبھی۔ اور عامر نے اسے نیچے سے مارنا چاہا۔ لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی۔ انہوں نے یہودی کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آلگا۔ اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اکٹھا کرکے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے۔ کم ہی ان جیسا کوئی عرب رُوئے زمین پر چلا ہوگا۔[1]
بہرحال حضرت عامر کے زخمی ہوجانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے:
أنا الذي سمتني أمي حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ
أوفیہم بالصاع کیل السندرہ
’’میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔‘‘
اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔[2]
جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو ایک یہودی نے قلعہ کی چوٹی سے جھانک کرکہا : تم کون ہو ؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ یہودی نے کہا: اس کتاب کی قسم جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ! تم لوگ بلند ہو ئے۔ اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ میدان اترے۔ اس پر ان کی ماں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا : یارسول اللہ ! کیا میرا بیٹا قتل کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا:نہیں ! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا۔ چنانچہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے یاسر کو قتل کردیا۔
اس کے بعد حصن ناعم کے پاس زور دار جنگ ہوئی، جس میں کئی سربرآوردہ یہودی مارے گئے۔ اور بقیہ یہود