کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1084
خاکے میں رنگ بھرنا ، اور اسے پھیلانا بڑھانا اور اُدھیڑ نا اور بُننا شروع کیا۔ اس کے ساتھی بھی اسی بات کو بنیاد بناکر اس کا تقرب حاصل کرنے لگے۔ اور جب مدینہ آئے تو ان تہمت تراشوں نے خوب جم کر پروپیگنڈہ کیا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے۔ کچھ بول نہیں رہے تھے لیکن جب لمبے عرصے تک وحی نہ آئی تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے علیحدگی کے متعلق اپنے خاص صحابہ سے مشورہ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صراحت کیے بغیر اشاروں اشاروں میں مشورہ دیا کہ آپ ان سے علیحدگی اختیار کرکے کسی اور سے شادی کرلیں ، لیکن حضرت اسامہ وغیرہ نے مشورہ دیا کہ آپ انہیں اپنی زوجیت میں برقرار رکھیں اور دشمنوں کی بات پر کان نہ دھریں۔ اس کے بعد آپ نے منبر پر کھڑے ہوکر عبد اللہ بن اُبی کی ایذا رسانیوں سے نجات دلانے کی طرف توجہ دلائی۔ اس پر حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے رغبت ظاہر کی کہ اسے قتل کردیں ، لیکن حضرت سعد بن عبادہ پر جو عبد اللہ بن ابی کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے ، قبائلی حمیت غالب آگئی۔ اور دونوں حضرات میں ترش کلامی ہوگئی ، جس کے نتیجے میں دونوں قبیلے بھڑک اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاصی مشکل سے انہیں خاموش کیا ، پھر خود بھی خاموش ہوگئے۔ ادھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ وہ غزوے سے واپس آتے ہی بیمار پڑگئیں۔ اور ایک مہینے تک مسلسل بیمار رہیں۔ انہیں اس تہمت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ بیماری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو لطف وعنایت ہوا کرتی تھی اب وہ نظر نہیں آرہی تھی۔ بیماری ختم ہوئی تو وہ ایک را ت اُم مسطح کے ہمراہ قضائے حاجت کے لیے میدان میں گئیں۔ اتفاق سے ام مسطح اپنی چادر میں پھنس کر پھسل گئیں اور اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بددعا دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حرکت پر انہیں ٹوکا تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بتلانے کے لیے کہ میرا بیٹا بھی پروپیگنڈے کے جرم میں شریک ہے۔ تہمت کا واقعہ کہہ سنا یا۔ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر اس خبر کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگانے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والدین کے پاس جانے کی اجازت چاہی پھر اجازت پاکر والدین کے پاس تشریف لے گئیں اور صورتِ حال کا یقینی طور پر علم ہوگیا تو بے اختیار رونے لگیں۔ اور پھر دو رات اور ایک دن روتے روتے گزر گیا۔ اس دوران نہ نیند کا سرمہ لگایا نہ آنسو کی جھڑی رکی۔ وہ محسوس کرتی تھیں کہ روتے روتے کلیجہ شق ہوجائے گا۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ کلمہ ٔ شہادت پر مشتمل خطبہ پڑھا۔ اور