کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1083
۲۔ واقعہ ٔ افک : اس غزوے کا دوسرا اہم واقعہ اِفک کا واقعہ ہے۔ اس واقعے کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ سفر میں جاتے ہوئے ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے۔ جس کا قرعہ نکل آتا اسے ہمراہ لے جاتے۔ اس غزوہ میں قرعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام نکلا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ساتھ لے گئے۔ غزوے سے واپسی میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی حاجت کے لیے گئیں۔ اور اپنی بہن کا ہار جسے عاریتاً لے گئی تھیں کھو بیٹھیں۔ احساس ہوتے ہی فورا ً اس جگہ واپس گئیں جہاں ہار غائب ہو ا تھا۔ اسی دوران وہ لوگ آئے جو آپ کا ہَودَج اونٹ پر لادا کرتے تھے۔ انہوں نے سمجھا آپ ہودج کے اندر تشریف فرما ہیں۔ اس لیے اسے اونٹ پر لاددیا ، اور ہودج کے ہلکے پن پر نہ چونکے۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ابھی نو عمر تھیں۔ بد ن موٹا اور بوجھل نہ تھا نیز چو نکہ کئی آدمیوں نے مل کر ہودج اٹھایا تھا اس لیے بھی ہلکے پن پر تعجب نہ ہوا۔ اگر صرف ایک یا دو آدمی اٹھا تے تو انہیں ضرور محسوس ہوجاتا۔ بہرحال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہار ڈھونڈ ھ کر قیام گا ہ پہنچیں تو پورا لشکر جاچکا تھا۔ اور میدان بالکل خالی پڑا تھا۔ نہ کوئی پکارنے والا تھا نہ جواب دینے والا۔ وہ اس خیال سے وہیں بیٹھ گئیں کہ لوگ انہیں نہ پائیں گے تو پلٹ کر وہیں تلاش کرنے آئیں گے ، لیکن اللہ اپنے امر پر غالب ہے۔ وہ بالائے عرش سے جو تدبیر چاہتا ہے کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئیں۔ پھر صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی یہ آواز سن کر بیدار ہوئیں کہ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ____؟ صفوان لشکر کے پچھلے حصے میں سوئے ہوئے تھے۔ ان کی عادت بھی زیادہ سونے کی تھی۔ انہوں نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کودیکھا تو پہچان لیا۔ کیونکہ وہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے بھی انہیں دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے انا للہ پڑھی اور اپنی سواری بٹھا کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قریب کردی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہوگئیں۔ حضرت صفوان نے انا للہ کے سوا زبان سے ایک لفظ نہ نکالا۔ چُپ چاپ سواری کی نکیل تھامی اور پیدل چلتے ہوئے لشکر میں آگئے۔ یہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا ، اور لشکر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ انہیں اس کیفیت کے ساتھ آتا دیکھ کر مختلف لوگوں نے اپنے اپنے انداز پر تبصرہ کیا۔ اور اللہ کے دشمن خبیث عبد اللہ بن اُبی کو بھڑاس نکالنے کا ایک اور موقع مل گیا۔ چنانچہ اس کے پہلو میں نفاق اور حسد کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اس نے اس کے کرب پنہاں کو عیاں اور نمایاں کیا۔ یعنی بدکاری کی تہمت تراش کر واقعات کے تانے بانے بننا ، تہمت کے