کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1081
اس واقعے کی خبر عبد اللہ بن ابی بن سَلُول کو ہوئی تو غصے سے بھڑک اٹھا۔ اور بولا: کیا ان لوگوں نے ایسی حرکت کی ہے؟ یہ ہمارے علاقے میں آکر اب ہمارے ہی حریف اور مدّ ِ مقابل ہوگئے ہیں۔ اللہ کی قسم ! ہماری اور ان کی حالت پر تو وہی مثل صادق آتی ہے ، جو پہلوں نے کہی ہے کہ اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا تازہ کرو تاکہ وہ تمہیں کو پھاڑ کھائے۔ سنو ! اللہ کی قسم ! اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں کا معزز ترین آدمی ، ذلیل ترین آدمی کونکال باہر کرے گا۔ پھر حاضرین کی طرف متوجہ ہوکر بولا: یہ مصیبت تم نے خود مول لی ہے۔ تم نے انہیں اپنے شہر میں اتارا۔ اور اپنے اموال بانٹ کر دیئے۔ دیکھو ! تمہارے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اگر اسے دینا بند کر دو تو یہ تمہارا شہر چھوڑ کر کہیں اور چلتے بنیں گے۔ اس وقت مجلس میں ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی موجود تھے۔ انہوں نے آکر اپنے چچا کو پوری بات کہہ سنائی۔ ان کے چچا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ بولے : حضور عباد بن بِشر سے کہئے کہ اسے قتل کردیں۔ آپ نے فرمایا : عمر ! یہ کیسے مناسب رہے گا لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کررہا ہے ؟ نہیں بلکہ تم کوچ کا اعلان کردو۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ کوچ نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لوگ چل پڑے تو حضرت اُسید بن حُضَیر رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ اور سلام کر کے عرض کیا کہ آج آپ نے ناوقت کوچ فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہارے صاحب (یعنی ابن اُبیّ) نے جو کچھ کہا ہے تمہیں اس کی خبر نہیں ہوئی ؟ انہوں نے دریافت کیا کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اس کا خیال ہے کہ وہ مدینہ واپس ہوا تو معززترین آدمی ذلیل ترین آدمی کو مدینہ سے نکال باہر کرے گا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اگر چاہیں تو اسے مدینے سے نکال باہر کریں۔ اللہ کی قسم! وہ ذلیل ہے اور آپ باعزت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے ساتھ نرمی برتئے۔ کیونکہ واللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے پا س اس وقت لے آیا جب اس کی قوم اس کی تاجپوشی کے لیے مونگوں کا تاج تیار کررہی تھی۔ اس لیے اب وہ سمجھتا ہے کہ آپ نے اس سے اس کی بادشاہت چھین لی ہے۔ پھر آپ شام تک پورا دن اور صبح تک پوری رات چلتے رہے بلکہ اگلے دن کے ابتدائی اوقات میں اتنی دیر تک سفر جاری رکھا کہ دھوپ سے تکلیف ہونے لگی۔ اس کے بعد اتر کر پڑاؤ ڈالا گیا تو لوگ زمین پر جسم رکھتے ہی بے خبر ہوگئے۔ آپ کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو سکون سے بیٹھ کر گپ لڑانے کا موقع نہ ملے۔ ادھر عبداللہ بن ابی کو جب پتہ چلا کہ زید بن ارقم نے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ تو وہ رسول اللہ