کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1079
منافقین مسلمانوں کی صف میں پانچواں کالم تھے۔ اور مدینہ ہی کے اندر رہتے تھے۔ مسلمانوں سے بلا تردُّد مل جل سکتے تھے۔ اور ان کے احساسات کو کسی بھی ’’مناسب ‘‘موقع پر بآسانی بھڑ کا سکتے تھے۔ اس لیے اس پروپیگنڈے کی ذمہ داری ان منافقین نے اپنے سر لی ، یا ان کے سر ڈالی گئی اور عبد اللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین نے اس کی قیادت کا بیڑ ااٹھایا۔ ان کا پروگرام اس وقت ذرا زیادہ کھل کر سامنے آیا جب حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب کو طلاق دی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی۔ چونکہ عرب کا دستور یہ چلا آرہا تھا کہ وہ مُتَبَنّیٰ (منہ بولے بیٹے ) کو اپنے حقیقی لڑکے کا درجہ دیتے تھے۔ اور اس کی بیوی کو حقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے ، اس لیے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے شادی کی تو منافقین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شور وشغب برپا کرنے کے لیے اپنی دانست میں دو کمزور پہلو ہاتھ آئے۔ ایک یہ کہ حضرت زینب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچوین بیوی تھیں۔ جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس لیے یہ شادی کیونکر درست ہوسکتی ہے ؟ دوسرے یہ کہ زینب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ۔یعنی منہ بولے بیٹے ۔ کی بیوی تھیں۔ اس لیے عرب دستور کے مطابق ان سے شادی کر نا نہایت سنگین جرم اور زبردست گناہ تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اور طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے۔ کہنے والوں نے یہاں تک کہا کہ محمد نے زینب کو اچانک دیکھا اور ان کے حسن سے اس قدر متأثر ہوئے کہ نقد دل دے بیٹھے۔ اور جب ان کے صاحبزادے زید کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے زینب کا راستہ محمدؐ کے لیے خالی کردیا۔ منافقین نے اس افسانے کا اتنی قوت سے پروپیگنڈہ کیا کہ اس کے اثرات کتب احادیث وتفاسیر میں اب تک چلے آرہے ہیں۔ اس وقت یہ سارا پروپیگنڈہ کمزور اور سادہ لوح مسلمانوں کے اندر اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ بالآخر قرآن مجید میں اس کی بابت واضح آیات نازل ہوئیں۔ جن کے اندر شکوک ِ پنہاں کی بیماری کا پورا پورا علاج تھا۔ اس پر وپیگنڈے کی وسعت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سورۂ احزاب کا آغاز ہی اس آیت کریمہ سے ہوا۔ ﴿ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ (۳۳: ۱) ’’اے نبی ، اللہ سے ڈرو۔ اور کافرین ومنافقین سے نہ دبو۔ بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘