کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1078
پھیریں گے۔ اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پُرس ہو کر رہنی ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ تم موت یا قتل سے بھاگوگے تو یہ بھگدڑ تمہیں نفع نہ دے گی۔ اور ایسی صورت میں تمتع کا تھوڑا ہی موقع دیا جائے گا۔ آپ کہہ دیں کہ کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچاسکتا ہے اگر وہ تمہارے لیے برا ارادہ کرے یا تم پر مہربانی کرنا چاہے۔ اور یہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کو حامی ومدد گار نہیں پائیں گے۔ اللہ تم میں سے ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو روڑے اٹکاتے ہیں۔ اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہماری طرف آؤ۔ اور جو لڑائی میں محض تھوڑا سا حصہ لیتے ہیں۔ جو تمہارا ساتھ دینے میں انتہائی بخیل ہیں۔ جب خطرہ آپڑے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دے دے پھر اپھرا کر دیکھتے ہیں جیسے مرنے والے پر موت طاری ہورہی ہے۔ اور جب خطرہ ٹل جائے تو مال ودولت کی حِرص میں تمہار ااستقبال تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی زبانوں سے کرتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت ایمان ہی نہیں لائے ہیں۔ اس لیے اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیے۔ اور اللہ پر یہ بات آسان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ حملہ آور گروہ ابھی گئے نہیں ہیں۔ اور اگر وہ (پھرپلٹ کر ) آجائیں تو یہ چاہیں گے کہ بدوؤں کے درمیان بیٹھے تمہاری خبر پوچھتے رہیں۔اور اگر یہ تمہارے درمیان رہیں بھی تو کم ہی لڑائی میں حصہ لیں گے۔‘‘
ان آیا ت میں موقع کی مناسبت سے منافقین کے انداز ِ فکر ، طرز عمل ، نفسیات اور خود غرضی وموقع پرستی کا ایک جامع نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔
ان سب کے باوجود یہود ، منافقین اور مشرکین غرض سارے ہی اعدائے اسلام کو یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ اسلام کے غلبے کا سبب مادّی تفوُّق ،اور اسلحے لشکر اور تعداد کی کثرت نہیں ہے۔ بلکہ اس کا سبب وہ اللہ پر ستی اور اخلاقی قدریں ہیں جن سے پورا اسلامی معاشرہ اور دین ِ اسلام سے تعلق رکھنے والا ہر فرد سرفراز وبہرہ مند ہے۔ ان اعدائے اسلام کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس فیض کا سر چشمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ، جو ان اخلاقی قدروں کا معجزے کی حد تک سب سے بلند نمونہ ہے۔
اسی طرح یہ اعدائے اسلام چار پانچ سال تک برسرِ پیکار رہ کر یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ اس دین اور اس کے حاملین کو ہتھیار وں کے بل پر نیست و نابود کرنا ممکن نہیں۔ اس لیے انہوں نے غالبا ًیہ طے کیا کہ اخلاقی پہلو کو بنیاد بنا کراس دین کے خلاف وسیع پیمانے پر پر وپیگنڈے کی جنگ چھیڑ دی جائے۔ اور اس کا پہلا نشانہ خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو بنایا جائے چونکہ