کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1076
تھے کہ راستے میں ایک مجلس سے گزر ہوا جس میں عبد اللہ بن اُبی بھی تھا۔ اس نے اپنی ناک ڈھک لی اور بو لا : ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا : آپ اپنے گھر میں بیٹھئے۔ ہماری مجلس میں ہمیں نہ گھیریے۔[1] یہ اظہار ِ اسلام سے پہلے کی بات ہے ، لیکن جنگِ بدر کے بعد جب اس نے ہوا کا رُخ دیکھ کر اسلام کا اظہار کیا تب بھی وہ اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کا دشمن ہی رہا۔ اور اسلامی معاشرے میں انتشار برپا کرنے اور اسلام کی آواز کمزور کرنے کی مسلسل تدبیریں سوچتا رہا۔ وہ اعدائے اسلام سے بڑا مخلصانہ ربط رکھتا تھا، چنانچہ بنو قینقاع کے معاملے میں نہایت نامعقول طریقے سے دخل انداز ہوا تھا۔(جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے ) اسی طرح اس نے غزوۂ اُحد میں بھی شر ، بدعہدی مسلمانوں میں تفریق اور ان کی صفوں میں بے چینی وانتشار اور کھلبلی پیدا کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ (اس کا بھی ذکر گزر چکا ہے ) اس منافق کے مکر وفریب کا یہ عالم تھا کہ یہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے تشریف لاتے تو پہلے خود کھڑا ہو جاتا اور کہتا:لوگو!یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول ؐ ہیں۔ اللہ نے ان کے ذریعے تمہیں عزت واحترام بخشا ہے ، لہٰذا ان کی مدد کرو ، انہیں قوت پہنچاؤ اور ان کی بات سنو اور مانو۔ اس کے بعد بیٹھ جاتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر خطبہ دیتے۔ پھر اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب جنگِ اُحد کے بعد پہلا جمعہ آیا کیونکہ ۔یہ شخص اس جنگ میں اپنی بدترین دغابازی کے باوجود خطبہ سے پہلے ۔ پھر کھڑا ہوگیا اور وہی باتیں دہرانی شروع کیں جو اس سے پہلے کہا کرتا تھا ، لیکن اب کی بار مسلمانوں نے مختلف اطراف سے ا س کا کپڑا پکڑ لیا اور کہا : او اللہ کے دشمن ! بیٹھ جا۔ تو نے جو جوحرکتیں کی ہیں اس کے بعد اب تو ا س لائق نہیں رہ گیا ہے۔ اس پر وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا اور یہ بڑبڑاتا ہوا باہر نکل گیا کہ میں ان صاحب کی تائید کے لیے اٹھا تو معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کوئی مجرمانہ بات کہہ دی۔ اتفاق سے دروازے پر ایک انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کہا : تیری بربادی ہو۔ واپس چل ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے دعائے مغفرت کردیں گے۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتاکہ وہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں۔[2]