کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1074
اپنے قبیلے اور کچھ دوسرے عربوں کو ساتھ لے کر آرہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کو تحقیق حال کے لیےروانہ فرمایا۔ انہوں نے اس قبیلے میں جاکر حارث بن ضرار سے ملاقات کی اور بات چیت کی۔ اور واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالات سے باخبر کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی صحت کا اچھی طرح یقین آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اور بہت جلد روانہ ہوگئے۔ روانگی ۲/شعبان کوہوئی۔ اس غزوے میں آپ کے ہمراہ منافقین کی بھی ایک جماعت تھی۔ جو اس سے پہلے کسی غزوے میں نہیں گئی تھی۔ آپ نے مدینہ کا انتظام حضرت زید بن حارثہ کو (اور کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو ذر کو ، اور کہا جاتا ہے کہ نمیلہ بن عبد اللہ لیثی کو ) سونپا تھا۔ حارث بن ابی ضرار نے اسلامی لشکرکی خبر لانے کے لیے ایک جاسوس بھیجا تھا ، لیکن مسلمانوں نے اسے گرفتار کرکے قتل کردیا۔ جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے رفقاء کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی اور اپنے جاسوس کے قتل کیے جانے کا علم ہوا تو وہ سخت خوفزدہ ہوئے۔ اور جو عرب ان کے ساتھ تھے ، وہ سب بکھر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چشمۂ مریسیع[1] تک پہنچے تو بنو مصطلق آمادہ ٔ جنگ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے بھی صف بندی کر لی۔ پورے اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے اور خاص انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا کچھ دیر فریقین میں تیروں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے صحابہ کرام نے یکبارگی حملہ کیا۔ اور فتح یاب ہوگئے ، مشرکین نے شکست کھائی۔ کچھ مارے گئے۔ عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا گیا۔ مویشی اور بکریاں بھی ہاتھ آئیں۔ مسلمان کا صرف ایک آدمی ماراگیا۔ اسے ایک انصار ی نے دشمن کا آدمی سمجھ کر مار دیا تھا۔ اس غزوے کے متعلق اہل سیر کا بیان یہی ہے ، لیکن علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ وہم ہے۔