کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1066
عبد اللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں اندر گھس گیا اور چھپ گیا۔ جب سب لوگ اندر آگئے تو پہرے دار نے دروازہ بند کرکے ایک کھونٹی پر چابیاں لٹکا دیں۔ (کچھ دیر بعد جب ہر طرف سکون ہو گیا تو ) میں نے اٹھ کر چابیاں لیں۔ اور دروازہ کھول دیا۔ ابو رافع بالاخانے میں رہتا تھا۔ اور وہاں مجلس ہواکرتی تھی۔ جب اہل مجلس چلے گئے تو میں اس کے بالاخانے کی طرف چڑھا۔ میں جو کوئی دروازہ بھی کھولتا تھا اسے اندر کی جانب سے بند کر لیتا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو میرا پتہ لگ بھی گیا تو اپنے پاس ان کے پہنچنے سے پہلے پہلے ابو رافع کو قتل کرلوں گا۔ اس طرح میں اس کے پاس پہنچ تو گیا ،(لیکن ) وہ اپنے بال بچوں کے درمیان ایک تاریک کمرے میں تھا۔ اور مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کس جگہ ہے۔ اس لیے میں نے کہا : ابو رافع ! اس نے کہا : یہ کون ہے ؟ میں نے جھٹ آواز کی طرف لپک کر اس پر تلوار کی ایک ضرب لگائی لیکن میں اس وقت ہڑبڑایا ہوا تھا۔ اس لیے کچھ نہ کر سکا۔ ادھر اس نے زور کی چیخ ماری۔ لہٰذا میں جھٹ کمرے سے باہر نکل گیا اور ذرا دور ٹھہرکر پھر آگیا۔ اور (آواز بدل کر ) بو لا: ابو رافع ! یہ کیسی آوازتھی؟ اس نے کہا : تیری ماں برباد ہو۔ ایک آدمی نے ابھی مجھے اس کمرے میں تلوار ماری ہے۔ عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ اب میں نے ایک زور دار ضرب لگائی۔ جس سے وہ خون میں لت پت ہوگیا لیکن اب بھی میں اسے قتل نہ کرسکا تھا۔ اس لیے میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ پر رکھ کر دبا دیا۔ اور وہ اس کی پیٹھ تک جارہا۔ میں سمجھ گیا کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے۔ اس لیے اب میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا واپس ہوا اور ایک سیڑھی کے پاس پہنچ کر یہ سمجھتے ہوئے کہ زمین تک پہنچ چکا ہوں۔ پاؤں رکھا تو نیچے گرپڑا۔ چاندنی رات تھی۔ پنڈلی سرک گئی ، میں نے پگڑی سے اسے کس کر باندھا۔ اور دروازے پر آکر بیٹھ گیا۔ اور جی ہی جی میں کہا کہ آج جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کرلیا ہے یہاں سے نہیں نکلوں گا۔ چنانچہ جب مرغ نے بانگ دی تو موت کی خبر دینے والا قلعے کی فصیل پر چڑھا۔ اوربلند آواز سے پکار اکہ میں اہلِ حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی اطلاع دے رہا ہوں۔ اب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور کہا: بھاگ چلو۔ اللہ نے ابو رافع کو کیفر ِ کردار تک پہنچا دیا۔ چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا۔ اور آپ سے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ۔ میں نے اپنا پاؤں پھیلایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا دست مُبارک پھیرا۔ اور ایسا لگا گویا کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔[1]