کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1064
ہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن پر بنوقریظہ کی ایک عورت نے چکی کا پاٹ پھینک مارا تھا۔ ان کے علاوہ حضرت عکاشہ کے بھائی ابو سنان بن محصن نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔ جہاں تک حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے تو وہ چھ رات مسلسل ستون سے بندھے رہے۔ ان کی بیوی ہرنماز کے وقت آکر کھول دیتی تھیں۔ اور وہ نماز سے فارغ ہو کر پھر اسی ستون میں بندھ جاتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح دم ان کی توبہ نازل ہوئی۔ اس وقت آپ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف فرماتھے۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوکر مجھ سے کہا : اے ابو لبابہ خوش ہوجاؤ۔ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی۔ یہ سن کر صحابہ انہیں کھولنے کے لیے اچھل پڑے لیکن انہوں نے انکار کردیا کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کوئی اور نہ کھولے گا۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کے لیے نکلے اور وہاں سے گزرے تو انہیں کھول دیا۔ یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔[1]اللہ نے اس غزوہ اور غزوہ خندق کے متعلق سورۂ احزاب میں بہت سی آیات نازل فرمائیں۔ اور دونوں غزووں کی اہم جزئیات پر تبصرہ فرمایا۔ مومنین ومنافقین کے حالات بیان فرمائے۔ دشمن کے مختلف گروہوں میں پھوٹ اور پست ہمتی کا ذکر فرمایا۔ اور اہل کتاب کی بدعہدی کے نتائج کی وضاحت کی۔ ٭٭٭