کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1062
لیکن جو اللہ سے لڑتا ہے مغلوب ہوجاتا ہے۔ پھر لوگوں کو مخاطب کرکے کہا : اللہ کے فیصلے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ تو نوشتہ ٔ تقدیر ہے اور ایک بڑا قتل ہے۔ جو اللہ نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بیٹھا اور اس کی گردن ماردی گئی۔
اس واقعہ میں بنو قریظہ کی ایک عورت بھی قتل کی گئی۔ اس نے حضرت خَلاّد بن سُوید رضی اللہ عنہ پر چَکیّ کا پاٹ پھینک کر انہیں قتل کردیا تھا اسی کے بدلے اسے قتل کیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ جس کے زیر ناف بال آچکے ہوں اسے قتل کردیا جائے ، چونکہ حضرت عطیہ قرظی کو ابھی بال نہیں آئے تھے۔ لہٰذا انہیں زندہ چھوڑ دیا گیا۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو کر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
حضرت ثابت بن قیس نے گزارش کی کہ زبیر بن باطا اور اس کے اہل وعیال کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زبیر نے ثابت پر کچھ احسانات کیے تھے ۔ ان کی گزارش منظور کرلی گئی۔ اس کے بعد ثابت بن قیس نے زبیر سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو اور تمہارے اہل وعیال کو میرے لیے ہبہ کردیا ہے۔ اور میں ان سب کو تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ (یعنی تم بال بچوں سمیت آزاد ہو ) لیکن جب زبیر بن باطا کو معلوم ہوا کہ اس کی قوم قتل کردی گئی ہے تو اس نے کہا : ثابت ! تم پر میں نے جو احسان کیا تھا اس کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی دوستوں تک پہنچادو۔ چنانچہ اس کی بھی گردن مار کراسے اس کے یہودی دوستوں تک پہنچا دیا گیا۔ البتہ حضرت ثابت نے زبیر بن باطاکے لڑکے عبدالرحمن کو زندہ رکھا، چنانچہ وہ اسلام لاکر شرف ِصحبت سے مشرف ہوئے۔ اسی طرح بنو نجار کی ایک خاتون حضرت ام المنذر سلمیٰ بنت قیس نے گزارش کی کہ سموأل قرظی کے لڑکے رفاعہ کو ان کے لیے ہبہ کردیا جائے۔ ان کی بھی گزارش منظور ہوئی۔ اور رفاعہ کو ان کے حوالے کردیا گیا۔ انہوں نے رفاعہ کو زندہ رکھا۔ اور وہ بھی اسلام لاکر شرفِ صحبت سے مشرف ہوئے۔
چند اور افراد نے بھی اسی رات ہتھیار ڈالنے کی کارروائی سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا۔ لہٰذا ان کی بھی جان ومال اور ذریت محفوظ رہی۔ اسی رات عَمر و نامی ایک اورشخص ۔ جس نے بنو قریظہ کی بدعہدی میں شرکت نہ کی تھی ۔ باہر نکلا۔ اسے پہرہ داروں کے کمانڈر محمد بن مسلمہ نے دیکھا لیکن پہچان کر چھوڑ دیا ، پھر معلوم نہیں وہ کہاں گیا۔