کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1061
موت وحیا ت کے نازک ترین لمحات میں جو خطرناک بدعہدی کی تھی وہ تو تھی ہی ، اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں ، دوہزار نیزے ، تین سوزِرہیں اور پانچ سو ڈھال مہیا کررکھے تھے جس پر فتح کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کیا۔
اس فیصلے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بنو قریظہ کو مدینہ لاکر بنو نجار کی ایک عورت ۔ جو حارث کی صاحبزادی تھیں ۔ کے گھر میں قید کردیا گیا۔ اور مدینہ کے بازار میں خندقیں کھود ی گئیں ، پھر انہیں ایک ایک جماعت کرکے لے جایا گیا۔ اور ان خندقوں میں ان کی گردنیں ماردی گئیں۔ کارروائی شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد باقی ماندہ قیدیوں نے اپنے سردار کعب بن اسد سے دریافت کیا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے ؟ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے ؟ اس نے کہا : کیا تم لوگ کسی بھی جگہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے ؟ دیکھتے نہیں کہ پکار نے والا رک نہیں رہا ہے اور جانے والاپلٹ نہیں رہا ہے؟ یہ اللہ کی قسم! قتل ہے۔ بہر کیف ان سب کی (جن کی تعداد چھ اور سات سو کے درمیان تھی ) گردنیں ماردی گئیں۔
اس کارروائی کے ذریعے غدر وخیانت کے ان سانپوں کا مکمل طور پرخاتمہ ہوگیا جنہوں نے پختہ عہدوپیمان توڑا تھا۔ مسلمانوں کے خاتمے کے لیے ان کی زندگی کے نہایت سنگین اور نازک ترین لمحات میں دشمن کو مدد دے کر جنگ کے اکابر مجرمین کا کردار ادا کیا تھا۔ اور اب وہ واقعتا مقدمے اور پھانسی کے مستحق ہوچکے تھے۔
بنو قریظہ کی اس تباہی کے ساتھ بنو نضیر کا شیطان اور جنگ ِ احزاب کا ایک بڑا مجرم حیی بن اخطب بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ شخص اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا باپ تھا۔ قریش وغَطفان کی واپسی کے بعد جب بنو قریظہ کا محاصرہ کیا گیا۔ اور انہوں نے قلعہ بندی اختیار کی تو یہ بھی ان کے ہمراہ قلعہ بند ہوگیا تھا۔ کیونکہ غزوۂ احزاب کے ایام میں یہ شخص جب کعب بن اسد کو غدر وخیانت پر آمادہ کرنے کے لیے آیا تھا تو اس کا وعدہ کررکھا تھا۔ اور اب اسی وعدے کو نباہ رہا تھا ، اسے جس وقت خدمت نبوی ؐ میں لایا گیا ، ایک جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھا جسے خود ہی ہر جانب سے ایک ایک انگل پھاڑ رکھا تھا تاکہ اسے مال غنیمت میں نہ رکھوالیا جائے۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے رسی سے یکجا بندھے ہوئے تھے۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا : سنئے ! میں نے آپ کی عداوت پراپنے آپ کو ملامت نہیں کی ،