کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1054
لے کر واپس آئے تو قریش اور غطفان نے کہا : واللہ! نعیم رضی اللہ عنہ نے سچ ہی کہا تھا ، چنانچہ انہوں نے یہود کو کہلا بھیجا کہ اللہ کی قسم ! ہم آپ کوکوئی آدمی نہ دیں گے ، بس آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی نکل پڑیں۔ اور (دونوں طرف سے) محمد پر ہلہ بول دیا جائے۔ یہ سن کر قریظہ نے باہم کہا: واللہ ! نعیم رضی اللہ عنہ نے تم سے سچ ہی کہا تھا اس طرح دونوں فریق کا اعتماد ایک دوسرے سے اٹھ گیا۔ ان کی صفوں میں پھوٹ پڑ گئی اور ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔
اس دوران مسلمان اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کررہے تھے: ((اللہم استر عوراتنا وآمن روعاتنا۔)) ’’اے اللہ ہماری پردہ پوشی فرما۔ اور ہمیں خطرات سے مامون کردے۔‘‘اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمارہے تھے :
(( اللہم منزل الکتاب، سریع الحساب، اہزم الأحزاب، اللہم اہزمہم وزلزلہم)) [1]
’’اے اللہ ! کتاب اتارنے والے اور جلد حساب لینے والے۔ ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ ! انہیں شکست دے اور جھنجوڑکر رکھ دے۔‘‘
بالآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی دعائیں سن لیں۔ چنانچہ مشرکین کی صفوں میں پھوٹ پڑجانے اور بددلی وپست ہمتی سرایت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر تند ہواؤں کا طوفان بھیج دیا۔ جس نے ان کے خیمے اکھیڑ دیئے ، ہانڈیاں الٹ دیں ، طَنابوں کی کھونٹیاں اکھاڑ دیں ، کسی چیز کو قرار نہ رہا اور اس کے ساتھ ہی فرشتوں کا لشکر بھیج دیا۔ جس نے انہیں ہلا ڈالا۔ اور ان کے دلوں میں رعب اور خوف ڈال دیا۔
اسی سرد اور کڑ کڑاتی ہوئی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حُذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ موصوف ان کے محاذ میں پہنچے تو وہاں ٹھیک یہی حالت بپا تھی۔ اور مشرکین واپسی کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خدمت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں واپس آکر ان کی روانگی کی اطلاع دی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی تو (دیکھا کہ میدان صاف ہے ) اللہ نے دشمن کو کسی خیر کے حصول کا موقع دیئے بغیر اس کے غیظ وغضب سمیت واپس کردیا ہے۔ اور ان سے جنگ کے لیے تنہا کافی ہواہے۔ الغرض! اس طرح اللہ