کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1052
مدداورفتح کی خوشخبری سن لو ! اس کے بعد آپ نے پیش آمدہ حالات سے نمٹنے کا پروگرام بنایا اور اسی پروگرام کے ایک جزو کے طور پر مدینے کی نگرانی کے لیے فوج کا ایک حصہ روانہ فرماتے رہے تاکہ مسلمانوں کو غافل دیکھ کر یہود کی طرف سے عورتوں اور بچوں پر اچانک کوئی حملہ نہ ہوجائے ، لیکن اس موقع پر ایک فیصلہ کن اقدام کی ضرورت تھی جس کے ذریعے دشمن کے مختلف گروہوں کوایک دوسرے سے بے تعلق کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے سوچا کہ بنو غطفان کے دونوں سرداروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف سے مدینے کی ایک تہائی پیداوار پر مصالحت کرلیں تاکہ یہ دونوں سردار اپنے اپنے قبیلے لے کر واپس چلے جائیں۔ اور مسلمان تنہاقریش پر جن کی طاقت کا بار بار اندازہ لگایا جاچکا تھا۔ ضرب کاری لگانے کے لیے فارغ ہوجائیں۔ اس تجویز پر کچھ گُفت وشنید بھی ہوئی۔ مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے اس تجویز کے بارے میں مشورہ کیا تو ان دونوں نے بیک زبان عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلاچوں چرا تسلیم ہے۔ اور اگر محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خاطر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جب ہم لوگ اور یہ لوگ دونوںشرک بت پرستی پر تھے تو یہ لوگ میزبانی یاخرید وفرخت کے سواکسی اور صورت سے ایک دانے کی بھی طمع نہیں کرسکتے تھے تو بھلا اب جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت ِ اسلام سے سرفروز فرمایا ہے ، اور آپ کے ذریعے عزت بخشی ہے ، ہم انہیں اپنا مال دیں گے ؟ واللہ! ہم تو انہیں صرف اپنی تلواردیں گے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی رائے کو درست قرار دیا۔ اور فرمایا کہ جب میں نے دیکھا کہ سارا عرب ایک کمان کھینچ کر تم پر پل پڑا ہے تو محض تمہاری خاطر یہ کام کرنا چاہا تھا۔ پھر ۔الحمد للہ ۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دشمن میں پھوٹ پڑ گئی۔ ان کی جمعیت شکست کھاگئی ، اور ان کی دھار کند ہو گئی۔ ہوایہ کہ غطفان کے ایک صاحب جن کانام نُعَیم بن مسعود بن عامر اشجعی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسلمان ہوگیا ہوں ، لیکن میری قوم کو میرے اسلام لانے کا علم نہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی حکم فرمایئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم فقط ایک آدمی ہو(لہٰذا کوئی فوجی اقدام تو نہیں کرسکتے ) البتہ جس قدر ممکن ہوان میں پھوٹ ڈالو اور ان کی حوصلہ شکنی کرو ، کیونکہ جنگ تو چالبازی کا نام ہے۔ اس پر حضرت نعیم فورا ً ہی بنو قریظہ کے ہاں پہنچے۔ جاہلیت میں ان سے ان کا بڑا