کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1050
ان قلعے اور گڑھیوں میں بھی مسلمان کا حفاظتی لشکر موجود ہے ۔حالانکہ وہاں کوئی لشکر نہ تھا ۔ اسی لیے یہود کو دوبارہ اس قسم کی جرأت نہ ہوئی۔ البتہ وہ بُت پرست حملہ آوروں کے ساتھ اپنے اتحاد اور انضمام کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے انہیں مسلسل رسد پہنچاتے رہے ، حتیٰ کہ مسلمانوں نے ان کی رسد کے بیس اونٹوں پر قبضہ بھی کر لیا۔
بہرحال یہود کی عہد شکنی کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ نے فوراً اس کی تحقیق کی طرف توجہ فرمائی۔ تاکہ بنو قریظہ کا موقف واضح ہوجائے۔ اور اس کی روشنی میں فوجی نقطۂ نظر سے جواقدام مناسب ہو اختیار کیا جا ئے۔ چنانچہ آپ نے اس خبر کی تحقیق کے لیے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ، سعد بن عبادہ ، عبد اللہ بن رواحہ اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنہم کو روانہ فرمایا۔ اور ہدایت کی کہ جاؤ دیکھو ! بنی قریظہ کے بارے میں جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ واقعی صحیح ہے یا نہیں ؟ اگرصحیح ہے تو واپس آکر صرف مجھے بتا دینا۔ اور وہ بھی اشاروں اشاروں میں۔ لوگوں کے بازومت توڑنا۔ اور اگر وہ عہد وپیمان پر قائم ہیں تو پھر لوگوں کے درمیان علانیہ اس کا ذکر کردینا۔ جب یہ لوگ بنو قریظہ کے قریب پہنچے تو انہیں انتہائی خباثت پر آمادہ پایا۔ انہوں نے علانیہ گالیاں بکیں۔ دشمنی کی باتیں کیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی۔ کہنے لگے:اللہ کا رسول کون ____؟ ہمارے اور محمد کے درمیان کوئی عہد ہے نہ پیمان۔
یہ سن کر وہ لوگ واپس آگئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا : عضل وقارہ۔ مقصود یہ تھا کہ جس طرح عضل وقارہ نے اصحابِ رجیع کے ساتھ بدعہدی کی تھی اسی طرح یہود بھی بد عہدی پر تُلے ہوئے ہیں۔
باوجودیکہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اخفائے حقیقت کی کوشش کی لیکن عام لوگوں کو صورتحال کا علم ہوگیا۔ اور اس طرح ایک خوفناک خطرہ ان کے سامنے مجسم ہوگیا۔
درحقیقت اس وقت مسلمان نہایت نازک صورت حال سے دوچار تھے۔ پیچھے بنو قریظہ تھے جن کا حملہ روکنے کے لیے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔ آگے مشرکین کا لشکر ِجرار تھا جنہیں چھوڑ کر ہٹنا ممکن نہ تھا۔ پھر مسلمان عورتیں اور بچے تھے جو کسی حفاظتی انتظام کے بغیر بد عہد یہودیوں کے قریب ہی تھے۔ اس لیے لوگوں میں سخت اضطراب برپا ہوا جس کی کیفیت اس آیت میں بیان کی گئی ہے :