کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1048
سعد نے (زخمی ہونے کے بعد )دعا کی کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ جس قوم نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور انہیں نکال باہر کیا ان سے تیری راہ میں جہاد کرنا مجھے جس قدر محبوب ہے اتنا کسی اور قوم سے نہیں ہے۔ اے اللہ ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہماری ان کی نگ کو آخری مرحلے تک پہنچا دیا ہے۔ پس اگرقریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہوتو مجھے ان کے لیے باقی رکھ کہ میں ان سے تیری راہ میں جہاد کروں۔ اور اگر تونے لڑائی ختم کردی ہے تو اسی زخم کوجاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنادے۔[1]ان کی اس دعا کا آخری ٹکڑا یہ تھا کہ (لیکن ) مجھے موت نہ دے یہاں تک کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوجائے۔ [2] بہر کیف ایک طرف مسلمان محاذ جنگ پر ان مشکلات سے دوچار تھے تو دوسری طرف سازش اور دسیسہ کاری کے سانپ اپنے بلوں میں حرکت کررہے تھے۔ اور اس کوشش میں تھے کہ مسلمانوں کے جسم میں اپنا زہر اتاردیں۔ چنانچہ بنو نضیر کا مجرم اکبر ____حیی بن اخطب ____بنو قریظہ کے دیار میں آیا۔ اور ان کے سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس حاضر ہوا۔ یہ کعب بن اسد وہی شخص ہے جو بنو قریظہ کی طرف سے عہد وپیمان کرنے کا مجاز ومُختارتھا۔ اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ جنگ کے مواقع پر آپ کی مدد کرے گا۔ (جیسا کہ پچھلے صفحات میں گزر چکا ہے ) حُیی نے آکر اس کے دروازے پر دستک دی تو اس نے دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ مگرحیی اس سے ایسی ایسی باتیں کرتا رہا کہ آخر کار اس نے دروازہ کھول ہی دیا۔ حیی نے کہا : اے کعب ! میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھاہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ میں نے قریش کو اس کے سرداروں اور قائدین سمیت لاکر رومہ کے مجمع الاسیال میں اتار دیا ہے۔ اور بنو غطفان کو ان کے قائدین اور سرداروں سمیت احد کے پاس ذنب نقمی میں خیمہ زن کردیا ہے۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدوپیمان کیا ہے کہ وہ محمد ؐ اور اس کے ساتھیوں کا مکمل صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔ کعب نے کہا : اللہ کی قسم ! تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے ، مگر اس میں کچھ رہ نہیں گیا ہے۔ حیی ! تجھ پر افسوس ! مجھے میرے حال پر چھوڑ دے۔ میں نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے صدق ووفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا ہے۔ مگر حیی اس کو مسلسل چوٹی اور کندھے میں بٹتا اور لپیٹتا رہا ، یہاں تک کہ اسے رام کر ہی لیا۔