کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1047
اسی طرح کے پر زور مقابلوں کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بعض نمازیں بھی فوت ہوگئی تھیں۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، خندق کے روز آئے۔ اور کفار کو سخت سست کہتے ہوئے کہنے لگے کہ یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آج بمشکل سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھ سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اور میں نے توواللہ! ابھی نماز پڑھی ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بُطحان میں اترے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو فرمایا: اور ہم نے بھی وضو کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی۔ یہ سورج ڈوب چکنے کے بعد کی بات ہے۔ اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ [1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کے فوت ہونے کا اس قدر ملال تھا کہ آپ نے مشرکین پر بددعا فرمادی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے روز فرمایا: اللہ ان مشرکین سمیت ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ جس طرح انہوں نے ہم کو نماز وسطیٰ (کی ادائیگی) سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔[2]
مسند احمد اور مسند شافعی رحمہ اللہ میں مروی ہے کہ مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی سے مصروف رکھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری نمازیں یکجاپڑھیں۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگِ خندق کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ پس کسی دن ایک صورت پیش آئی ، اور کسی دن دوسری۔[3]
یہیں سے یہ بات بھی اخذ ہوتی ہے کہ مشرکین کی طرف سے خندق عبور کرنے کی کوشش اور مسلمانوں کی طرف سے پیہم دفاع کئی روز تک جاری رہا۔ مگر چونکہ دونوں فوجوں کے درمیان خندق حائل تھی، اس لیے دست بدست اور خونریز جنگ کی نوبت نہ اس کی ، بلکہ صرف تیر اندازی ہوتی رہی۔
اسی تیر اندازی میں فریقین کے چند افراد مارے بھی گئے ____لیکن انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، یعنی چھ مسلمان اور دس مشرک جن میں سے ایک یا دوآدمی تلوار سے قتل کیے گئے تھے۔
اسی تیر اندازی کے دوران حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بھی ایک تیر لگا جس سے ان کے دستے کی شہ رگ کٹ گئی۔ انہیں حبان بن عرقہ نامی ایک قریشی مشرک کا تیر لگا تھا۔ حضرت