کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1044
روٹی پکائی جاتی رہی۔[1] حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی بہن خندق کے پاس دوپسر کھجور لے کر آئیں کہ ان کے بھائی اور ماموں کھالیں گے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ کھجور مانگ لی اور ایک کپڑے کے اوپر بکھیر دی۔ پھر اہل ِ خندق کو دعوت دی۔ اہل خندق اسے کھاتے گئے اور وہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ سارے اہل خندق کھا کھا کر چلے گئے۔ اور کھجور تھی کہ کپڑے کے کناروں سے باہر گررہی تھی۔[2] انہیں ایام میں ان دونوں واقعات سے کہیں بڑھ کر ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جسے امام بخاری نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت پتھر یلا ٹکڑا آڑے آگیا۔ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ یہ چٹان نما ٹکڑا خندق میں حائل ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اتر رہا ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا ۔ ہم نے تین روز سے کچھ چکھا نہ تھا ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال لے کر مارا تو وہ چٹان نما ٹکڑا بھر بھرے تودے میں تبدیل ہوگیا۔[3] حضرت براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خندق (کی کھدائی) کے موقع پر بعض حصے میں ایک سخت چٹان آپڑی۔ جسسے کدال اچٹ جاتی تھی ، کچھ ٹوٹتا ہی نہ تھا۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ کدال لی۔اور بسم اللّٰہکہہ کر ایک ضرب لگائی۔ (تو ایک ٹکڑ اٹوٹ گیا ) اور فرمایا : اللّٰہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ!میں اس وقت وہاں کے سُرخ محلوں کو دیکھ رہاہوں۔ پھر دوسری ضرب لگائی تو ایک دوسرا ٹکڑا کٹ گیا ، اور فرمایا : اللہ اکبر ! مجھے فارس دیا گیا ہے۔ واللہ ! میں اس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہاہوں۔ پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا : بسم اللہ۔ تو باقی ماندہ چٹان بھی کٹ گئی۔ پھر فرمایا: اللہ اکبر ! مجھے یمن کی کُنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ ! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صَنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں۔[4] ابن اسحاق نے ایسی ہی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ذکر کی ہے۔[5]