کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1043
فأنزلن سکینۃ علینا وثبت الأقدام إن لا قینا إن الألی رغبوا علینا وإن أرادوا فتنۃ أبینا ’’اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ دیتے نہ نماز پڑھتے ، پس ہم پر سکینت نازل فرما۔ اور اگر ٹکراؤ ہو جائے تو ہمارے قدم ثابت رکھ۔ انہوں نے ہمارے خلاف لوگوں کو بھڑکایا ہے۔ اگر انہوں نے کوئی فتنہ چاہا تو ہم ہرگز سر نہیں جھکائیں گے۔‘‘ حضرت براء فرماتے ہیں کہ آپ آخری الفاظ کھینچ کر کہتے تھے۔ ایک روایت میں آخری شعر اس طرح ہے : إن الألی قد بغوا علینا وإن أرادوا فتنۃ أبینا[1] ’’یعنی انہوں نے ہم پر ظلم کیا ہے۔ اور اگر وہ ہمیں فتنے میں ڈالنا چاہیں گے تو ہم ہرگز سرنگوں نہ ہوں گے۔‘‘ مسلمان ایک طرف اس گرمجوشی کے ساتھ کام کررہے تھے تو دوسری طرف اتنی شدت کی بھوک برداشت کررہے تھے کہ اس کے تصور سے کلیجہ شق ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (اہل خندق) کے پاس دومٹھی جَو لایا جاتا تھا۔ اور ہیک دیتی ہوئی چکنائی کے ساتھ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ بھوکے ہوتے تھے۔ اور یہ حلق کے لیے بد لذت ہوتا تھا۔ اس سے مہک پھُوٹتی رہتی تھی۔[2] ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کا شکوہ کیا۔ اور اپنے شکم کھول کر ایک ایک پتھر دکھلائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا شکم کھول کر دوپتھر دکھلایا۔ [3] خندق کی کھُدائی کے دوران نبوت کی کئی نشانیاں بھی جلوہ فگن ہوئیں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ، نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر سخت بھُوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا۔ اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباً ڈھائی کلو) جَو پیسا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رازداری کے ساتھ خفیہ طور پر گزارش کی کہ اپنے چند رُفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہلِ خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی ، ہمراہ لے کر چل پڑے۔ اور سب لوگوں نے اسی ذرا سے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا۔ پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت پر برقرار رہی۔ اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی۔ اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا۔ اس سے