کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 1042
نے اس تجویز پر فوراً عمل درآمد شروع فرماتے ہوئے ہر دس آدمی کو چالیس ہاتھ خندق کھودنے کاکام سونپ دیا۔ اور مسلمانوں نے پوری محنت اور دلجمعی سے خندق کھودنی شروع کردی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کی ترغیب بھی دیتے تھے۔ اور عملاً اس میں پوری طرح شریک بھی رہتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق میں تھے۔ لوگ کھود رہے تھے۔ اور ہم کندھوں پر مٹی ڈھورہے تھے کہ (اسی اثناء میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہم لا عیش إلا عیش الآخرۃ فاغفر للمہاجرین والأنصار[1] ’’اے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ، پس مہاجرین اور انصار کو بخش دے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف تشریف لائے !صحیح بخاری باب غزوۃ الخندق ۲/۵۸۸ تو دیکھا کہ مہاجرین وانصار ایک ٹھنڈی صبح میں کھودنے کاکام کررہے ہیں۔ ان کے پاس غلام نہ تھے کہ ان کے بجائے غلام یہ کام کردیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھُوک دیکھ کر فرمایا : اللہم إن العیش عیش الآخرۃ فاغفر للأنصار والمہاجرۃ ’’اے اللہ ! يقيناً زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ پس انصار ومہاجرین کو بخش دے۔‘‘ انصار ومہاجرین نے اس کے جواب میں کہا : نحن الذین بایعوا محمدًا علی الجہاد ما بقینا أبداً [2] ’’ہم وہ ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کے لیے جب تک کہ باقی رہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد پر بیعت کی ہے۔‘‘ صحیح بخاری ہی میں ایک روایت حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ خندق سے مٹی ڈھورہے تھے۔ یہاں تک کہ غبار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم کی جلد ڈھانک دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال بہت زیادہ تھے۔ میں نے (اسی حالت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن رواحہ کے رجزیہ کلمات کہتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ڈھوتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے : اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا